رسائی کے لنکس

پاکستانی ایف سولہ طیاروں کی مرمت: 'بھارت کو تشویش کی ضرورت نہیں'


فائل فوٹو
فائل فوٹو

امریکہ کی طرف سے پاکستان کو ایف سولہ طیاروں کے پرزہ جات کی فراہمی سے متعلق معاہدے کو دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی سردمہری کے خاتمے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے ۔ البتہ بھارت نے اس معاہدے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے امریکہ سے احتجاج کیا تھا تاہم تجزیہ کار اور دفاعی ماہرین سمجھتے ہیں کہ اس معاہدے سے خطے میں طاقت کے توازن کا کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوگا۔

امریکی وزارتِ دفاع نے گزشتہ ہفتے پاکستان کو ایف 16 طیاروں کی دیکھ بھال کے لیے آلات اور سروسز کی مد میں 45 کروڑ ڈالر کے ممکنہ معاہدے کی منظوری دی تھی۔اس معاہدے میں پرنسپل کانٹریکٹرامریکی طیارہ ساز کمپنی 'لاک ہیڈ مارٹن' ہو گی۔

تجزیہ کاروں اور دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ ان پرزہ جات کی فراہمی سے پاکستان فضائیہ کے ایف سولہ طیاروں کو درپیش تکنیکی مسائل کا خاتمہ ہوگا اور یہ طیارے پاکستان کے دفاع کے لیے مؤثر طور پر استعمال ہوسکیں گے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان دفاعی تعلقات کی بحالی کے ساتھ نئی جہتوں میں بھی روابط بڑھ رہے ہیں جو خطے اور دونوں ملکوں کے لیے اہم ہیں۔

قائداعظم یونیورسٹی کے سینئر پروفیسر ڈاکٹر ظفر جسپال نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ دفاعی معاہدہ ایک مثبت پیش رفت ہے لیکن اسے پاکستان کے حق میں نہیں کہا جاسکتا۔ ان کے بقول ایف سولہ طیاروں کے پرزہ جات پر ایک بڑی رقم خرچ ہوگی اور اس معاہدے کا فائدہ امریکی کمپنی 'لاک ہیڈ مارٹن' اور اس کے ملازمین کو ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ امریکی کانگریس بھی دفاعی اداروں کے بہت زیراثر رہتی ہے اور اس قسم کے معاہدوں کو اہمیت دیتی ہے۔اس معاہدے سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ روابط کو مضبوط بنانا چاہتا ہے۔

ظفرجسپال کا کہنا تھا کہ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات صرف دفاعی تعلقات تک ہی محدود نہیں بلکہ امریکہ پاکستان کی سب سے بڑی مارکیٹ بھی ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ کے پاکستان میں بہت سے اسٹرٹیجک مفادات ہیں جس کی وجہ سے دونوں ممالک ایک دوسرے کے قریب رہے ہیں۔

بھارتی اخبار 'دی ہندو' کے مطابق بھارت نے امریکی اسسٹنٹ سیکریٹری آف اسٹیٹ ڈونلڈ لو کے دورۂ بھارت کے موقع پر پاکستان کو 450 ملین ڈالر کے دفاعی سازوسامان کی فراہمی پر احتجاج کیا ہے۔

بھارت کا مؤقف ہے کہ پاکستان کے پاس موجود ایف سولہ طیارے انسدادِ دہشت گردی آپریشن کے بجائے بھارت کے خلاف استعمال کیے جانے کا امکان ہے۔

امریکہ سے پاکستان کو ملنے والے جدید ترین ایف سولہ لڑاکا طیارے۔ (فائل فوٹو)
امریکہ سے پاکستان کو ملنے والے جدید ترین ایف سولہ لڑاکا طیارے۔ (فائل فوٹو)

بھارتی دفاعی تجزیہ کار پروین سہانے کہتے ہیں کہ نئی دہلی نے اس مذکورہ معاہدے پر جو احتجاج کیا ہے ان کے خیال میں یہ صرف سیاسی اقدام سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جو پیکج پاکستان کو دیا گیا ہے اس سے خطے میں طاقت کا توازن خراب ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ ان کے بقول بھارت خود کو امریکہ کے بہت قریب سمجھتا ہے اور اس کا خیال ہے کہ اس معاہدے پر اسے نظر انداز کیا گیا ہے۔

پروین سہانے نے کہا کہ نئی دہلی حکومت کا خیال ہے کہ پاکستان کے ساتھ ایسے کسی بھی معاہدے سے قبل امریکہ کو پہلےبھارت کو آگاہ کرنا چاہیے تھا جس کا اظہار باضابطہ طور پر ڈونلڈ لو کے حالیہ دورۂ بھارت کے دوران کیا گیا تھا۔

پاکستان اور امریکہ کے دفاعی معاہدے میں ہے کیا؟

امریکی محکمۂ دفاع کی طرف سے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق 450 ملین ڈالر کے اس ممکنہ معاہدے کے تحت امریکی حکومت اور لاک ہیڈ مارٹن کی جانب سے جو انجینئرنگ، تکنیکی اور لاجسٹکل سروسز فراہم کی جائیں گی ان کی فہرست اعلامیے میں دی گئی ہے۔اعلامیے کے مطابق اس ممکنہ فروخت میں طیارے میں کسی نئی صلاحیت، اسلحے وغیرہ کا اضافہ شامل نہیں ہے۔

امریکی وزارتِ دفاع کا کہنا تھا کہ پاکستان کے ساتھ دفاعی معاہدہ امریکی خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کے اہداف کے حصول میں بھی مدد دے گا تاکہ پاکستان کے پاس امریکہ اور اتحادی افواج کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں اور مستقبل میں ممکنہ آپریشنز میں آپریٹ کرنے کی صلاحیت برقرار رہے۔

دفاعی تجزیہ کار ضیا شمسی کہتے ہیں کہ 2017 میں امریکی صدر نے پاکستان کی دفاعی معاونت بند کردی تھی اور اس لحاظ سے یہ اہم ہے کہ بائیڈن انتظامیہ نے ایک بار پھر پاکستان کی دفاعی معاونت بحال کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایف سولہ طیاروں کا پاکستان میں استعمال بہت زیادہ ہے اور اس کے پرزہ جات صرف لاک ہیڈمارٹن سے ہی دستیاب ہیں اور کوئی بھی امریکی کمپنی اپنی حکومت کی اجازت کے بغیر یہ سامان فراہم نہیں کرتی۔

کیا پاکستان ایف سولہ طیارے بھارت کے خلاف استعمال نہیں کر سکتا؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:30 0:00

ان کے بقول، اس وقت پاکستان کے پاس 70 سے زائد ایف سولہ طیارے ہیں جنہیں پاکستان نے بہت بہترین حالت میں رکھا ہے۔ پاکستان ان کا زیادہ استعمال کومبیٹ آپریشن میں کرتا ہے۔

ضیا شمسی نے بتایا کہ امریکہ نے پاکستان کو واضح کیا ہے کہ وہ اسے کوئی نئی صلاحیت فراہم نہیں کرے گا اور اس کا معاہدہ صرف ایف سولہ طیاروں کی اپ گریڈیشن تک محدود ہے۔

مذکورہ معاہدے پر بھارت کے اعتراض سے متعلق ضیا شمسی کہتے ہیں کہ ماضی میں بھی بھارت کی طرف سے اس طرح کے اعتراضات سامنے آتے رہے ہیں۔ تاہم ایف سولہ طیاروں کے سامان کی فراہمی سے خطے میں کوئی عدم استحکام نہیں ہو گا ۔

ڈاکٹر ظفر جسپال کے مطابق موجودہ حالات میں امریکہ کی جانب سے پاکستان کو نیو جنریشن طیارے فراہم کرنے کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا جب کہ پاکستان اس وقت نئے طیاروں کی خریداری برداشت نہیں کر سکتا۔

کیا پاک امریکہ تعلقات بہتری کی طرف ہیں؟

پاک امریکہ تعلقات کے بارے میں ضیا شمسی کہتے ہیں کہ امریکہ کو جب نظر آتا ہے کہ ان کا پاکستان کے بغیر گزارہ نہیں تو وہ پاکستان کے قریب آجاتا ہے لیکن جب انہیں محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کی مدد کے بغیر ان کے مفادات ممکن ہیں تو وہ پاکستان سے دور ہوجاتا ہے، یہ ماضی میں بھی کئی مرتبہ ہوتا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ امریکہ کی طرف سے ایف سولہ طیاروں کے لیے آلات فراہم کرنا ایک مثبت قدم ہے اور ہم سجھتے ہیں کہ اگر آپ کسی ملک کے ہتھیار اور جہاز استعمال کررہے ہیں تو ان سے اختلافات زیادہ عرصے تک کسی بھی طور پر درست نہیں۔

بھارتی تجزیہ کار پروین سہانے بھی سمجھتے ہیں کہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں واضح بہتری نظر آرہی ہے۔ ان کے بقول سابق وزیراعظم عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات بہتر ہیں اور یہ معاہدہ اس کا باقاعدہ ثبوت ہے۔

XS
SM
MD
LG