امریکی ڈرون حملے میں القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کی ہلاکت کا معاملہ اب بھی موضوع بحث ہے۔ کابل میں ہونے والے اس حملے کے محرکات اور الظواہری کے ٹھکانے کی معلومات اور امریکہ کی اُن تک رسائی پر بھی قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔ ایسے میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کی مدد کرنے والے ملک پاکستان کے ممکنہ کردار پر بھی بات ہو رہی ہے۔
یاد رہے کہ ماضی میں امریکہ افغانستان میں القاعدہ کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کے لیے پاکستان کی سرزمین استعمال کرتا رہا ہے جب کہ نائن الیون کے بعد امریکہ کے افغانستان پر حملے کے دوران بڑی تعداد میں القاعدہ کے رہنماؤں کو پاکستان سے گرفتار کر کے امریکہ کے حوالے کیا گیا۔
کیا الظواہری تک پہنچنے کے لیے بھی پاکستان نے امریکہ کی مدد کی؟ کیا امریکہ اور پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کے درمیان اب بھی تعاون جاری ہے؟ اس حوالے سے مبصرین مختلف آرا کا اظہار کر رہے ہیں۔
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ ممکن ہے کہ ایمن الظواہری کی ہلاکت کے حوالے سے پاکستان نے کوئی براہ راست کردار ادا نہ کیا ہو تاہم پاکستانی فضائی حدود کے استعمال کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔
واضح رہے کہ الظواہری کی ہلاکت پر پاکستان کے دفتر خارجہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا تھا کہ پاکستان ہر قسم کی دہشت گردی کی مذمت کرتا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کا کردار اور قربانیاں سب جانتے ہیں۔
'امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعاون کا نظام مشرف دور سے ہی موجود ہے'
دفاعی تجزیہ نگار بریگیڈیئر (ر) سعد محمد کا کہنا ہے کہ جنرل مشرف کے دور میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان گراونڈ لائن آف کمیونیکیشن اور ایئر لائن آف کمیونیکیشن کے معاہدے طے پائے تھے جو تاحال برقرار ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے مزید بتایا کہ خلیجی ملکوں میں بھی امریکہ کے فوجی اڈے ہیں، وہاں سے وہ ڈرون کا استعمال با آسانی کر سکتا ہے۔
خیال رہے کہ تاحال طالبان اور القاعدہ کی جانب سے ایمن الظواہری کی ہلاکت کے معاملے پر کوئی باضابطہ بیان سامنے نہیں آیا۔
بدھ کو طلوع نیوز سے بات کرتے ہوئے طالبان عبوری حکومت کے نائب وزیراعظم عبدالسلام حنفی نے بتایا کہ اس حوالے سے واضح معلومات سامنے نہیں آئیں۔ صرف یہ پتا چلا ہے کہ ایک حملہ ہوا ہے جس کی طالبان بھرپور مذمت کرتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ حملہ انسانی اقدار، بین الاقوامی اصول دوحہ معاہدے کی کھلی خلاف ورزی ہے اور طالبان دوحہ امن معاہدے کے تحت اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کے فیصلے پر کاربند ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
'امریکہ نے پاکستان کے ساتھ معلومات شیئر نہیں کی ہوں گی'
واشنگٹن کے تحقیقی ادارے یونائیٹڈ انسٹی ٹیوٹ آف پیس سے وابستہ ڈاکٹر اسفندیار میر کا کہنا ہے وہ یہ نہیں سمجھتے کہ امریکہ نے اس آپریشن کے حوالے سے معلومات پاکستان کے ساتھ شیئر کی ہوں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ پاکستانی حکام کا سراج الدین حقانی کے ساتھ خاصا قریبی تعلق بتایا جاتا ہے۔ اس تناظر میں امریکہ اور امریکی حکام کے لیے اتنی حساس معلومات کو پاکستان کے ساتھ شیئر کرنا مشکل لگتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس وقت پاکستان اگر امریکہ اور عالمی برادری کے ساتھ دہشت گردی کے حوالے سے کوئی معلومات شیئر کرنے میں دلچسپی رکھتا ہو تو وہ داعش کے حوالے سے ہوں گی۔ کیونکہ اگر دیکھا جائے تو گزشتہ ایک دہائی میں پاکستان کو القاعدہ سے کوئی خاص مسئلہ نہیں رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس واقعے کے بعد طالبان کے لیے بہت زیادہ مشکلات کھڑی ہو گئی ہیں۔ عالمی ممالک کے ساتھ ساتھ دوست ممالک کے ساتھ بھی تعلقات بڑھانے کے حوالے سے ان کی پالیسی میں شگاف پڑھ گیا ہے۔
ڈاکٹر اسفند یار میر کے مطابق تایئوان اور چین کے درمیان حالیہ کشیدگی اور حالات کی نزاکت کو بھانپنے ہوئے طالبان کی وزارت خارجہ کی جانب سے جو بیان سامنے آیا ہے اس میں 'ون چائنا' پالیسی' کو سراہا گیا ہے۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ چین اور امریکہ کے درمیان کشیدگی میں طالبان کا جھکاؤ چین کی جانب ہے۔
طالبان حکومت کے وزارتِ خارجہ کے ترجمان عبدالقہار بلخی نے ایک ٹویٹ میں بتایا کہ طالبان 'ون چائنا پالیسی' پر زور دیتا ہے اور مناسب ذرائع سے امریکہ، چین کشیدگی کا حل چاہتا ہے۔ تاکہ وہ علاقائی اور بین الاقوامی امن، استحکام اور ترقی کے لیے مشترکہ طور پر کام کر سکیں۔
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ القاعدہ سربراہ ایمن الظواہری کو طالبان حکومت کے عبوری وزیر داخلہ سراج الدین حقانی نے پناہ دی ہو۔
تاہم ڈاکٹر اسفندیار میر کا کہنا تھا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ اس بات کا علم صرف حقانی گروپ کو ہی ہو گا۔ کیونکہ اگر ماضی کو دیکھا جائے تو طالبان کے بانی ملا محمد عمر نے اپنی سابقہ حکومت اسامہ بن لادن کی خاطر گنوا دی تھی اور ملا عمر کا تعلق حقانی گروہ سے نہیں بلکہ قندھار سے تھا۔
دوسری جانب تجزیہ نگاروں کے مطابق القاعدہ کے حوالے سے دنیا کے کسی بھی ملک کے پاس امریکہ کے ساتھ معاونت کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔
بریگیڈیئر (ر) سعد محمد کے مطابق پاکستان اور ایران کی رضامندی کے بغیر بھی امریکہ کے پاس ریڈار جام کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ساتھ القاعدہ کے معاملے میں اقوامِ متحدہ کی ایک قرارداد بھی موجود ہے جس کے تحت القاعدہ سے نمٹنے کے لیے ہر ملک امریکہ کے ساتھ تعاون کا پابند ہے۔
القاعدہ سربراہ ایمن الظواہری کی کابل میں موجودگی کے بارے میں طالبان دوحہ دفتر کے سیاسی ترجمان محمد سہیل شاہین کا کہنا ہے کہ حکومت اور طالبان قیادت کو الظواہری کی موجودگی کا علم نہیں تھا۔
ایک بیان میں اُن کا کہنا تھا کہ طالبان حکومت دوحہ امن معاہدے کی پابند ہے۔ افغان قیادت اس واقعے کے حوالے سے تحقیق کر رہی ہے جس کے نتائج سب کے ساتھ شیئر کیے جائیں گے۔