پاک سرزمین پارٹی کے چیئرمین مصطفیٰ کمال نے اپنی پارٹی متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان میں ضم کردی ہے۔ دوسری جانب ایم کیو ایم بحالی کمیٹی کے سربراہ فاروق ستار بھی دوبارہ ایم کیو ایم کا حصہ بن گئے ہیں۔
ان فیصلوں کا اعلان کراچی میں جمعرات کو ایم کیو ایم پاکستان کے مرکز بہادرآباد میں متحدہ قومی موومنٹ کے کنوینر خالد مقبول صدیقی کے ہمراہ ایم کیو ایم بحالی کمیٹی کے سربراہ فاروق ستار اور پاک سرزمین پارٹی کے چیئرمین مصطفیٰ کمال نے مشترکہ پریس کانفرنس میں کیا۔
خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ وہ پاک سرزمین پارٹی کے چیئرمین مصطفیٰ کمال، صدر انیس قائم خانی اور فاروق ستار اور ان کے ساتھی اور کارکنان کا جو یہاں ساتھ آئے ہیں۔ شکریہ ادا کرتا ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مینڈیٹ تقسیم کرنے اور سازشیں کرنے والوں کو آج مایوسی ہوگی۔
خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ گزشتہ پانچ برسوں سے سندھ کے شہری علاقوں میں مردم شماری، حلقہ بندیوں، نوکریوں سمیت عزت نفس سب زد میں رہی ہے۔ پانچ سال میں ایم کیو ایم ہر سطح پر اپیل کرتی رہی کہ حالات سنگین سے سنگین ہو رہے ہیں۔لہٰذا ضرورت اس بات کی تھی کہ تمام لوگ اپنی آواز سے آواز ملائیں۔
اس موقع پر مصطفیٰ کمال نے کہا کہ آج کا دن تاریخ میں بہت اہم لکھا جائے گا۔ ہم نے پہلے بھی سمجھ میں نا آنے والے فیصلے کیے ہیں۔ 14 اگست 2013 کو میں الطاف حسین کی ایم کیو ایم چھوڑ کر گیا، میری ان سے کوئی ذاتی لڑائی یا رنجش نہیں تھی۔ اکتوبر 2013 کو انیس قائم خانی بھی ایم کیو ایم چھوڑ کر چلے گئے۔ تین برسوں تک ہم نے کوئی بیان، کوئی سوشل میڈیا استعمال نہیں کیا۔
انہوں نے کہا کہ" تین مارچ 2016 کو میں نے اور انیس قائم خانی نے جو اعلان اور بغاوت کی وہ اس لیے کی کیوں کہ پاکستان کی ریاست اورفوج کو گالیاں دی جا رہی تھیں۔ نریندر مودی سےسرحد کھول کر سیاسی پناہ کی اپیل کی جا رہی تھی۔ـ"
SEE ALSO: کراچی، حیدرآباد بلدیاتی انتخابات: کس کا پلڑا بھاری ہے؟مصطفیٰ کمال کے بقول یہ وہ دور تھا جب ہر تیسرے دن شہدا قبرستان میں جھنڈے میں لپیٹ کر لاش جاتی تھی۔ مائیں اپنے لاپتا بچوں کو ڈھونڈتی پھرتی تھی۔ ہم نے آواز لگائی۔ ہم نے بتایا کہ یہ جو روزانہ مہاجروں کا نام لے کر اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں ،میں ان سے بغاوت کرتا ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے اپنے لوگوں، اپنی قوم کے لیے اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر تین مارچ 2016 کو علیحدگی کا اعلان کیا۔
سربراہ پاک سرزمین پارٹی نے کہ ہمارے سر پر ایک اور امتحان آ کھڑا ہوا ہے۔ ہم نے اس شہر کو 'را' کے تسلط سے اس لیے آزاد نہیں کرایا تھا کہ آصف علی زرداری اسے اپنی جاگیر سمجھ لیں۔ یہاں پر 15 سال سے ایک جماعت کی حکمرانی ہے۔ ایک جماعت 4 سال حکومت میں رہی لیکن ایک کام بھی نہیں کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ یہ خواب دیکھنے لگے کہ آئندہ نسلوں تک کے لیے شہر پر قبضہ کرنے کی منصوبہ بندی ہوگئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''اس شہر میں کچھ لوگ شریف کیا ہوئے پورا شہر ہی بدمعاش ہوگیا۔''
اپنی گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ہم آج ایک اور ہجرت کرنے آئے ہیں اور وہ ہم پاک سرزمین پارٹی سے متحدہ قومی موومنٹ کی طرف کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان چلانے والوں سے گزارش ہے کہ کراچی کے دکھوں کا مداوا کریں۔ ہم میں اختلافات تھے جو کھل کر کیے لیکن آج کراچی کے لیے ہم سب متحد ہو رہے ہیں۔ اور ہم خالد مقبول صدیقی کے ماتحت کام کریں گے۔
دوسری جانب فاروق ستار نے پریس کانفرنس میں کہا کہ آج اختلافات ایک طرف رکھ کر متحد، منظم ایم کیو ایم پاکستان قائم کرنی ہے۔ ہمیں اسےماضی کی چھاپ سے بہت الگ کرکے دور لے جانا ہے۔
فاروق ستار کے بقول آج کا دن پاکستان کی موجودہ سیاسی معاشی بحران میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ پاکستان کے عوام کو اگر امید کی کوئی کرن نظر آتی ہے تو وہ صرف ایم کیو ایم پاکستان ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج کے بعد سے ہمارا عمل بتائے گا کہ ہم کیوں یکجا اور متحد ہو رہے ہیں۔ 22 اگست کو جو کچھ ہوا 23 اگست کو پوری ایم کیو ایم کو ماضی سے الگ کیا۔
انہوں نے کہا کہ 22 اگست2016 کو جو ہوا تھا۔ ہم نے 23 اگست کو پوری ایم کیو ایم پاکستان کو ماضی سے الگ کیا۔لیکن پھر اندرونی اور بیرونی سازشیں ہوئیں جس میں ہماری بھی غلطیاں اور کوتائیاں تھیں۔
فاروق ستار کا کہنا تھا کہ اگر 23 اگست کو لکیر کھینجی گئی تو 22 اگست کا مقدمہ ہم پر اب تک کیوں چل رہا ہے؟
انہوں نے کہا کہ کراچی کا سیاسی خلا ابھی تک پر نہیں ہوا۔ یہ خلا متحد اور منظم ہونے سے ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ بلدیاتی اختیارات و وسائل ہمارا حق ہے جو ہم کو ملنا چاہیے۔ اگر پاکستان میں ہماری حلقہ بندیاں صحیح نہیں ہوں گی تو بتایا جائے کہ یہ کہاں صحیح ہوں گی۔
ان کا کہنا تھا کہ جب ایوانوں میں فیصلے نہیں ہوں گے تو سڑکوں پر ہوں گے۔ اور اگر ہم نے شارع فیصل پر دھرنا دے دیا تو پھر دیکھتے ہیں کہ 15 جنوری کو کیسے الیکشن ہوتے ہیں۔
اس موقع پر ایک سوال کے جواب میں سربراہ ایم کیو ایم پاکستان خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ 15 جنوری کو بلدیاتی الیکشن نہیں ہونے دیں گے۔ اگر آج رات حلقہ بندیاں درست کردیں تو کل الیکشن ہوجائیں گے لیکن اگر حلقہ بندیاں درست نہیں ہوئیں تو ہم پھر اپنے حق کے لیے لڑیں گے۔