گوگل کے چوٹی کے اہل کار کا ’ڈجیٹل تاریک دور‘ کا انتباہ

وِنٹ سرف کو اِس بات کا اندیشہ ہے کہ آئندہ کی نسلوں کے پاس اکیسویں صدی کا بہت یا کم یا نہ ہونے کے برابر ریکارڈ موجود ہوگا، ایسے میں جب، بقول اُن کے، ہم ’ڈجیٹل تاریک دور‘ میں داخل ہوں گے

وِنٹ سرف کا انٹرنیٹ کے بانیوں میں شمار ہوتا ہے۔ وہ آج کل گوگل کے نائب صدر ہیں۔

وہ کہتے کہیں کہ اُنھیں اس بات کی پریشانی لاحق ہے کہ وہ تصاویر اور ڈوکیومنٹس، جو اب تک ہم کمپیوٹر پر ’سیو‘ کرتے آئے ہیں، کہیں وہ ضائع نہ ہوجائیں۔ اُن کے خیال میں یہ اس لیے ہو سکتا ہے کہ ہارڈویئر اور سافٹ ویئر غیر مروج ہوجائیں گے۔

یہ بات ’بی بی سی نیوز‘ میں سائنس کے نامہ نگار، پالب گوش کی ایک رپورٹ میں کہی گئی ہے۔

وِنٹ سرف کو اِس بات کا خوف ہے کہ آئندہ کی نسلوں کے پاس اکیسویں صدی کا بہت یا کم یا نہ ہونے کے برابر ریکارڈ موجود ہوگا، ایسے میں جب، بقول اُن کے، ہم ’ڈجیٹل تاریک دور‘ میں داخل ہوں گے۔

مسٹر سرف نے یہ بیان سان ہوزے میں ایک بڑی سائنس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ یہ سالانہ اجلاس ’امریکن ایسو سی ایشن فور دی ایڈوانسمنٹ آف سائنس‘ نے منعقد کرایا تھا۔ وہ اسٹائل سے ’تھری پیس‘ لباس میں ملبوس اجلاس میں داخل ہوئے۔

انٹرنیٹ کے میدان میں، وہ بہت ہی قدآور شخص ہیں، جنھوں نے اس بات کی وضاحت کی تھی کہ انٹرنیٹ پر ’ڈیٹا پیکٹ‘ کس طرح منتقل ہوتے ہیں۔ شاید وہ گوگل میں کام کرنے والے واحد شخص ہیں جو ٹائی پہنتے ہیں۔

پالب گوش بتاتے ہیں کہ اُنھوں نے انٹرنیٹ کے مؤجد کا شکریہ ادا کیا، جس پر وہ جھکے، اور انکساری سے کہا کہ، ’خوشی ہوتی ہے کہ کچھ کر پایا‘۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اب وہ ایک نئے مسئلے پر دھیان مرکوز کیے ہوئے ہیں، جو ہماری تاریخ کو برباد کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔

اُن کے الفاظ میں، ’ہماری زندگی، ہماری یادیں، ہمارے اہل خانہ کی پسندیدہ تصاریر ہمارے ہارڈ ڈوئیرز کے ’کلاؤڈ‘ میں، اطلاعات کے ذرون کے روپ میں موجود ہیں‘۔

تاہم، جوں جوں ٹیکنالوجی میں پیش رفت ہوتی ہے، یہ اطلاعات آنے والےتیز تر ڈجیٹل انقلاب کی نذر نہ ہوجائیں۔

مسٹر سرف نے بتایا کہ، ’اس بارے میں مجھے بہت پریشانی رہتی ہے‘۔

اُن کے بقول،’ہم اور آپ ایسے ہی تجربات سے گزر رہے ہیں۔ ڈوکیومنٹس کے پرانے فارمیٹ، جنھیں ہم بناتے ہیں یا آگے بڑھاتے ہیں، اُنھیں سافٹ ویئر کے تازہ ترین ورژن کے ذریعے پڑھنا مشکل ہوسکتا ہے، کیونکہ پرانی قابلیت کو دوام حاصل نہیں رہتا‘۔

اُنھوں نے کہا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ، ایسا ہوسکتا ہے کہ ہمارے پاس ڈجیٹل مواد کے انبار تو لگے ہوں، لیکن درحقیقت ہمیں یہ بات معلوم نہ ہو کہ یہ آرکائیو کس چیز کا ہے۔

وِنٹ سرف اس خیال کو فروغ دینا چاہتے ہیں کہ ’سافٹ ویئر اور ہارڈ ویئر کا ہر ذرہ محفوظ بنایا جائے، تاکہ یہ کبھی بھی قصہٴپارینہ نہ بنے۔ ایسا نہیں جیسا کہ کسی میوزئم میں ہوتا ہے؛ بلکہ ایک ڈجیٹل فارم میں، کلاؤڈ میں سرورز پر (محفوظ ہو)‘۔

اگر یہ خیال عملی ثابت ہوتا ہے، تو جن یادوں کو ہم دل کے قریب رکھے ہوئے ہیں، اُس تک نسل در نسل رسائی ممکن ہوگی۔