پاکستان میں کرونا وائرس کیسز کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسے میں ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف فرنٹ لائن پر ان مریضوں کے علاج پر مامور ہیں۔ صوبہ خیبرپختونخوا کی حکومت نے پوليس اينڈ سروسز اسپتال پشاور کو کرونا کے مريضوں کے لیے وقف کر رکھا ہے۔ جہاں کے ڈاکٹر آصف اظہار اور دیگر طبی عملہ وائرس سے متاثرہ مریضوں کا علاج کر رہے ہیں۔
کرونا وارڈ کے سربراہ ڈاکٹر آصف اطہار کہتے ہیں کہ مریضوں کی جان بچانا اُن کا فرض ہے۔ اُن سمیت دیگر ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی اولین ترجیح بھی ان مریضوں کی دیکھ بھال ہے۔
ڈاکٹر آصف اظہار کا کہنا ہے کہ تین فروری سے لے کر اب تک ایک ہزار سے زائد مشتبہ مریضوں کی اسکریننگ کی گئی ہے۔
وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتايا کہ اس وقت اسپتال میں کرونا وائرس کے سات مثبت کیسز ہیں جبکہ کچھ مريضوں کو گھربھيجا ہوا ہے۔ ليکن اسپتال کا عملہ ان سے مکمل رابطے ميں ہے اور وہ گھر پر الگ تھلگ رہ رہے ہيں۔
آصف اظہار کے مطابق اسپتال ميں صرف ايسے مريضوں کو داخل کيا جاتا ہے۔ جن کو فوری علاج کی ضرورت ہوتی ہو۔ ايسے مريضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے، جن میں کرونا وائرس کی علامات نہیں ہوتیں۔ لیکن اُن کے ٹیسٹ مثبت آ رہے ہیں۔
ڈاکٹر اظہار کے بقول ايسے مريضوں سے انکا مکمل ڈیٹا لینے کے بعد واپس گھر بھيج ديا جاتا ہے اور ضرورت پڑنے پر ايمبولينس کے ذریعے اسپتال لایا جاتا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
آصف اظہار کہتے ہیں کہ یہاں زیرِ علاج مریضوں کی حالت بہتر ہے۔ ڈاکٹرز اور نرسز اُن کی 24 گھنٹے نگہداشت کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر اظہار کے مطابق کرونا وارڈ ميں ڈاکٹرز اور عملہ تين قسم کی درجہ بنديوں ميں کام کرتے ہيں۔
جيسے ہی کوئی مریض اسپتال میں داخل ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ایک ٹیم جسے ٹیم اے کا نام دیا گیا ہے اس کا مکمل اندراج کرتی ہے۔ یہ ٹیم مریض سے کچھ فاصلے پر رہ کر اپنا کام کرتی ہے۔ لہذٰا انہیں حفاظتی کٹ، ماسک، سرجیکل گلوز، شو کورز اور دیگر اشیا دی جاتی ہیں۔
ٹيم بی ان مریضوں کا مکمل طبی معائنہ کرتی ہے، اگر ان مریضوں میں کرونا وائرس کے شواہد ملیں تو پھر انہیں ٹیم سی کے پاس بھیج دیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر آصف زيادہ تر ٹيم سی کا حصہ ہوتے ہيں جس ميں مريض کے ساتھ نہ صرف قريبی فاصلہ رکھنا پڑتا ہے۔ بلکہ بعض اوقات اُنہیں چھونا بھی پڑتا ہے۔ اُن کے بقول ٹیم سی میں شامل ڈاکٹر یا طبی عملے کو سب سے زیادہ احتیاط برتنی پڑتی ہے۔ لہذٰا کسی بھی ڈاکٹر یا عملے کے رُکن کو بغیر مکمل کٹ پہنے وارڈ میں جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔
ڈاکٹر آصف کے بقول کرونا وائرس سے متاثرہ مريض کے علاج کے دوران طبی عملہ تمام تر حفاظتی اقدامات کو بروئے کار لاتا ہے۔ جس ميں اين – 95 ماسک، سرجيکل دستانے، شُو کور، کيپ اور اپنے جسم کی حفاظت کے لئے گاؤن کا استعمال شامل ہے۔
ان کے بقول يہ تمام اشيا پہننے ميں بھی 10 سے 15 منٹ لگتے ہيں اور اسے پہن کر طبی عملے کو چلنے پھرنے میں بھی مشکل ہوتی ہے۔
پاکستان ميں کرونا وائرس سے پہلی ہلاکت صوبہ خيبر پختونخوا کے ضلع مردان ميں ہوئی۔ جس کے بعد پورے علاقے ميں خوف و ہراس پھيلا۔ ڈاکٹر آصف کے مطابق ان پر بھی اس کا اثر ضرور ہوا تاہم اب وہ ان مريضوں کے ساتھ عادی ہو گئے ہيں۔ اور تمام ميڈيکل اصولوں پر عمل درآمد کرتے ہيں۔
ڈاکٹر آصف کہتے ہیں کہ کام کے دباؤ کے باعث تھکاوٹ ہوتی ہے۔ شفٹ کے دوران وہ صرف بسکٹس پر ہی گزارا کرتے ہیں۔ کھلی چیزوں کو ہاتھ نہیں لگا سکتے، کیوں کہ اُنہوں نے خود کو مکمل طور پر اسٹرلائزڈ کيا ہوتا ہے۔
ڈاکٹر آصف کہتے ہیں کہ گھر واپسی پر بھی وہ بہت زیادہ احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہیں۔ گھر میں قدم رکھتے پہلے وہ ملحقہ واش روم ميں نہانے کے بعد نیا لباس پہنتے ہیں۔
ان کے بقول گزشتہ ڈيڑھ ماہ سے انہوں اپنے آپ کو گھر والوں سے مکمل الگ کیا ہوا ہے۔ وہ اپنی فيملی کے ساتھ براہ راست رابطے ميں نہيں ہيں۔
محمد ظاہر شاہ گزشتہ آٹھ سال سے ميل نرس کے طور پر فرائض سر انجام دے رہے ہيں۔ ان کا تعلق سوات سے ہے اور اس وقت وہ مردان ميڈيکل کمپلیکس ميں تعينات ہيں۔
پاکستان ميں مہلک کرونا وائرس سے ہلاک والے پہلے مریض سعادت خان کو مردان ميڈيکل کمپلیکس ہی لايا گيا تھا اور ظاہر شاہ اس ميڈيکل ٹيم کا حصہ تھے جنہوں نے سعادت خان کا معائنہ کيا تھا۔
وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتايا کہ آئسوليشن وارڈ کے لیے مخصوص افراد کی ڈيوٹی ہوتی ہے اور ہر کوئی وہاں نہيں جا سکتا۔ وہاں پر ڈيوٹی کرنے والے کا لباس اور شیڈول الگ ہے۔
محمد ظاہر شاہ نے واضح کيا کہ ايک ہفتے کی ڈيوٹی کے بعد اب وہ دو ہفتوں کے لیے سيلف آئسولیشن ميں ہيں اور کسی سے ملتے جلتے نہيں ہيں۔
ان کے بقول اُنہیں کوئی علامات وغيرہ نہيں ہيں تاہم احتیاطی تدابیر کے طور پر اُنہیں دوسروں سے الگ رہنا پڑتا ہے۔ کرونا کے مریضوں کے ساتھ پورا ایک ہفتہ ڈیوٹی کی ہے، لہذٰا دیگر افراد سے میرا میل جول مناسب نہیں ہے۔
ظاہر شاہ کا ایک بیٹا بھی ہے، لیکن اُنہوں نے اپنے اہل خانہ کو سوات بھیجا ہوا ہے۔ اور وہ مردان میں اکیلے ہی رہائش پذیر ہیں۔ تاکہ وہ یکسوئی کے ساتھ ڈیوٹی کر سکیں۔
انکے مطابق جب چين ميں يہ بيماری پھيلی تو اس وقت سے وہ اس کو نوٹ کر رہے تھے اور انہيں خدشہ تھا کہ بہت جلد يہ وائرس پاکستان کا رُخ کرے گا۔ تاہم انہيں يہ اندازہ نہیں تھا کہ سب سے پہلی ہلاکت ان کے علاقے کے شخص کی ہو گی۔
ظاہر شاہ کہتے ہیں کہ اب لوگوں میں آگاہی آ رہی ہے۔ لوگ سمجھ رہے ہیں کہ یہ وائرس کتنا خطرناک ہے اور احتیاط کے ذریعے ہی اس سے بچا جا سکتا ہے۔