کرونا وائرس کی وبا نے جہاں دنیا بھر میں رہنے سہنے، ملنے جلنے اور معاشرتی طور طریقوں میں تبدیلیاں کی ہیں، وہیں اب مذہبی رسومات کی روایتی طریقوں سے ادائیگی کے انداز میں بھی تبدیلی کے لیے کوششیں ہو رہی ہیں، جس کی ایک نئی مثال جمعے کے روز بھارت میں دیکھنے میں آئی۔
جزیرہ ساگر پر یاترا کے لیے آئے ہوئے ہزاروں ہندو یاتریوں پر ڈرونز کے ذریعے 'گنگا جل' یعنی دریائے گنگا کے پانی چھڑکاؤ کیا گیا، جس کا مقصد دریائے گنگا پر اشنان کے لیے جانے والے یاتریوں کی تعداد کم کرنا تھا۔
ہندوؤں کے ایک بڑے مذہبی اجتماع کے دوران دور دراز سے آئے ہوئے لاکھوں یاتری ایک مذہبی فریضے کے طور پر دریا گنگا میں اشنان کرتے ہیں یا ڈبکی لگاتے ہیں۔ مگر اب کرونا وائرس کے تیز رفتار پھیلاؤ کے باعث لوگوں کے بڑے بڑے اجتماعات کو روکنے کے لیے متبادل طریقے ڈھونڈے جا رہے ہیں۔ جزیرہ ساگر میں ہونے والے مذہی اجتماع میں ڈورنز کے ذریعے یاتریوں پر گنگا جل کا چھڑکاؤ کیا گیا۔
ملک کے مشرقی حصے میں یہ گنگا ساگر میلہ اسی طرح کا ہے جس طرح گزشتہ برس ہندوؤں کا کمبھ میلہ ہوا تھا، جسے بڑے پیمانے پر وبا پھیلانے والا اجتماع کہا گیا۔
SEE ALSO: بھارت میں ریکارڈ دو لاکھ سے زیادہ کرونا کیسز، کمبھ میلہ وبا کا نیا ہاٹ اسپاٹبھارت کی ہندو قوم پرست حکومت نے اس اجتماع پر پابندی لکانے سے انکار کر دیا تھا اور ملک میں کرونا کے تباہ کن پھیلاؤ کے لیے اسے بھی جزوی طور پر مورد الزام ٹھہرایا گیا تھا۔
عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اس میلے میں کوئی 30 لاکھ لوگوں کی شرکت متوقع ہیے۔ جو ساگر آئی لینڈ میں اس جگہ جمع ہون گے جہاں گنگا دریا خلیج بنگال سے ملتا ہے۔ اور ان میں عام لوگوں کے علاوہ مذہبی راہنما اور سادھو سنت وغیرہ بھی شامل ہوں گے۔
ایک مقامی عہدیدار بنکم ہزارہ نے ٹیلی فون پر خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کِہ طلوع آفتاب کے وقت وہاں لوگوں کا ایک ٹھاٹیں مارتا ہوا سمندر موجود تھا۔
لوگوں کو زیادہ تعداد میں دریائے گنگا پر جانے سے روکنے کے لیے جہاں وہ مقدس پانی میں نہانے کے لیے جاتے ہیں، ان پر ڈرونز کے ذریعے گنگا کا پانی چھڑکا گیا، تاکہ گنگا کے پانی میں اشنان کرنے کا ان کا مذہبی فریضہ پورا ہو سکے۔
Your browser doesn’t support HTML5
لیکن سادھوؤں، مذہبی راہنماؤں اور عقیدت مندوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے جو عددی اعتبار سے سیکیورٹی پر مامور عملے سے بہت زیادہ تھے، گنگا میں غوطہ لگایا۔ غوطہ لگانے والوں میں زیادہ تر وہ لوگ تھے جو ماسک وغیرہ بھی نہیں پہنے ہوئے تھے۔
اے ایف پی کے ایک فوٹو گرافر نے بتایا کِہ حالیہ برسوں کی نسبت یاتریوں کی تعداد کم تھی اور یہ کہ بارش کے سبب بھی کچھ یاتری یہ سفر نہ کر سکے. لیکن اس کے باوجود بہت بڑا مجمع غسل کے لیے موجود تھا۔
ڈیوٹی پر موجود ایک پولیس افسر نے بتایا کہ کووڈ-19 سے متعلق جو پابندیاں ہیں ان کو نافذ کرنا ممکن نہیں تھا۔
ان کا عقیدہ ہے کہ بھگوان انہیں محفوظ رکھے گا اور دریا میں نہانے سے نہ صرف ان کے گناہ دھل جائیں گے بلکہ اگر وائرس انہیں لگ بھی گیا ہے تو وہ اسے نہیں ہو گا۔
بھارت میں کووڈ کی موجودہ لہر سے بیمار ہونے والوں کی تعداد اس سے کہیں کم ہے جو گزشتہ برس اپریل اور مئی میں آنے والی لہر سے بیمار ہوئے تھے۔
گزشتہ برس یعنی 2021 کے مذہبی میلے کی طرح اس میلے میں بھی شرکت کے لیے شمالی بھارت سے بڑی تعداد میں لوگ ٹرینوں، بسوں اور کشتیوں کے ذریعے آئے تھے۔ اور اب واپس اپنے گھروں کو جائیں گے۔ اور ممکنہ طور پر وہ اپنے ساتھ اومیکرون کا وائرس بھی لے جائیں گے جو برق رفتاری سے پھیلتا ہے۔
کلکتہ کے اسکول آف ٹراپیکل میڈیسنز کے وائرس کے ایک ماہر امیتوا نندی کہتے ہیں کہ حکوت کے پاس ہر اس شخص کو ٹیسٹ کرنے کے لیے جو میلے میں گیا یا سماجی فاصلے کو نافذ کرنے کے لیے نہ تو سہولتیں موجود ہیں اور نہ ہی افرادی قوت ہے۔
نندی نے اے ایف پی کو بتایا کہ اگر پولیس دریا کے کنارے سماجی فاصلے کے ضابطے کو نافذ کرنے کی کوشش کرتی تو ایک بھگدڑ کی صورت حال پیدا ہو جاتی۔
پڑوسی صوبے بہار کے ایک یاتری 56 سالہ اسکول ٹیچر سربانندا موشس نے اے ایف پی کو بتایا کہ کہ خدا پر یقین کووڈ کے خوف پر غالب آ جائے گا۔ اور گنگا میں غسل ان کے تمام گناہوں کو دھو دے گا اور ہمیں محفوظ رکھے گا۔ موت ایک ابدی حقیقت ہے جو آنی ہے تو پھر خوف کے عالم میں جینے کا فائدہ کیا۔
(خبر کا مواد اے ایف پی سے لیا گیا)