بھارت میں کرونا وائرس کی نئی قسم اومکرون کے کیسز میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے وبا کی تیسری لہر کا اندیشہ بڑھ گیا ہے۔ ماہرین کے مطابق آئندہ برس فروری تک کرونا وائرس کی تیسری لہر آ سکتی ہے۔
رپورٹس کے مطابق ملک بھر میں اومکرون کے مجموعی کیسز کی تعداد 213 تک پہنچ گئی جب کہ بدھ کو کرونا کے 6317 کیسز سامنے آئے تھے ۔ وبا سے 24 گھنٹوں کے دوران 318 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ اس وقت ملک میں کرونا کے فعال کیسز کی تعداد 78 ہزار سے زائد ہے۔
رپورٹس کے مطابق اومکرون کے سب سے زیادہ کیسز دارالحکومت دہلی میں سامنے آئے ہیں۔ دوسرے نمبر پر ریاست مہاراشٹرا ہے۔ دہلی میں کل 57 اور مہاراشٹرا میں 54 کیسز کی تصدیق ہوئی ہے۔
اس کے علاوہ تیلنگانہ میں 24، کرناٹک میں 19، راجستھان میں 18، کیرالہ میں 15 اور گجرات میں 14 کیسز سامنے آئے ہیں۔ دیگر ریاستوں جیسے جموں و کشمیر، اتر پردیش، آندھرا پردیش، چنڈی گڑھ، تمل ناڈو اور مغربی بنگال میں بھی اومیکرون کے کچھ کیسز کی تصدیق ہوئی ہے۔
اومکرون کیسز میں اضافے کے پیشِ نظر وزیرِ اعظم نریندر مودی نے بھی ایک اعلیٰ سطح کا اجلاس طلب کر لیا ہے اور صورت حال کا جائزہ لیں گے۔
مرکزی حکومت نے اس وبا کی نئی قسم پر قابو پانے کے لیے تمام ریاستی حکومتوں کو ہدایات جاری کی ہیں جن میں نئے ویریئنٹ سے نمٹنے کے لیے وار رومز کا قیام، رات کا کرفیو،، ٹیسٹنگ میں تیزی اور کنٹینمنٹ زون بنانا شامل ہے۔
وزارتِ صحت کے ایک خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اب بھی ملک کے مختلف علاقوں میں ڈیلٹا ویریئنٹ موجود ہے جو کہ تشویش کی بات ہے۔
رواں سال کے مئی ماہ میں ڈیلٹا ویریئنٹ کی وجہ سے وبا کی دوسری لہر آئی تھی جو بہت زیادہ ہلاکت خیز ثابت ہوئی تھی۔
وزارتِ صحت کے مطابق کرونا وائرس کی نئی قسم اومکرون ڈیلٹا ویریئنٹ کے مقابلے میں تین گنا تیز پھیلتا ہے۔
رپورٹس کے مطابق گزشتہ کچھ دن سے کرونا کے مثبت کیسز میں بھی اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے تشویش موجود ہے۔
وزارتِ صحت نے ریاستوں سے کہا ہے کہ جن اضلاع میں گزشتہ ایک ہفتے کے دوران کرونا کی مثبت کیسز کی شرح 10 فی صد رہی ہے یا اسپتالوں میں 40 فی صد بستروں پر مریض ہیں اور انھیں آکسیجن کی ضرورت ہے تو وہاں کنٹینمنٹ زون بنائے جائیں اور پابندیاں نافذ کی جائیں۔
وزارتِ صحت نے رات میں کرفیو کے نفاذ، عوامی اجتماعات کے کنٹرول اور شادیوں، آخری رسومات، دفاتر، نقل و حمل کے ذرائع اور صنعتوں میں لوگوں کے کم سے کم شرکت کا حکم دیا ہے۔
وزارت نے تمام اضلاع کے ذمہ داروں کو ہدایت کی ہے کہ وہ گھر گھر جا کر سنگین بیماریوں میں مبتلا معمر افراد کا پتا لگائیں اور یہ بھی جاننے کی کوشش کریں کہ کرونا کے مثبت مریض کس کس کے رابطے میں ہیں۔
آل انڈیا انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (ایمس) نئی دہلی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر رنجیت گلیریا نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نیا ویریئنٹ بہت تیزی سے پھیلتا ہے لہٰذا اس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ضروری ہے کہ ویکسین لگانے کا عمل تیز کیا جائے اور لوگ کرونا وائرس سے متعلق ہدایات کی پابندی کریں۔
صفدر جنگ اسپتال سے وابستہ ڈاکٹر پنکج نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ بھارت میں نیا ویریئنٹ پھیل رہا ہے۔البتہ یہ کتنی تیزی سے پھیل رہا ہے اس کے بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
ان کے مطابق اس سلسلے میں جینوم سیکوینسنگ (ایک قسم کے ٹیسٹ) سے ہی پتا چل سکے گا۔ دوسرے ملکوں میں اومکرون بتدریج پھیل رہا ہے لہٰذا خیال کیا جاتا ہے کہ یہاں بھی ایسا ہی ہوگا۔
انھوں نے کہا کہ بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ فروری تک وبا کی تیسری لہر آسکتی ہے۔ البتہ یہ بھی سمجھا جا رہا ہے کہ تیسری لہر دوسری لہر کی مانند زیادہ سنگین نہیں ہوگی۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ عوام کے بڑے طبقے میں وائرس کا مقابلہ کرنے کے لیے قوت مدافعت پیدا ہو چکی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت ڈیلٹا اور اومکرون کی وجہ سے کرونا کے مثبت کیسز میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسا سمجھا جاتا ہے کہ اومکرون جلد ہی ڈیلٹا پر حاوی ہو جائے گا۔
دیگر ماہرین کا کہنا ہے کہ تیسری لہر تو آئے گی۔ اس میں اتنے لوگ متاثر نہیں ہو گے جتنے کہ دوسری لہر کے دوران ہوئے تھے۔
نیشنل کووڈ-19 سپر ماڈل کمیٹی کے سربراہ پروفیسر ودیا ساگر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر ملک تیسری لہر کی گرفت میں آتا ہے اور صورتِ حال سنگین ہوتی ہے تب بھی فعال کیسز کی یومیہ تعداد دو لاکھ سے زائد نہیں ہو پائے گی۔
تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس بارے میں درست قیاس آرائی اسی وقت کی جا سکتی ہے جب یہ معلوم ہو جائے کہ اومکرون بھارتی آبادی کو کس انداز میں متاثر کر رہا ہے۔
دیگر ماہرین کا کہنا ہے کہ اومکرون ویریئنٹ ڈیلٹا کے مقابلے میں زیادہ مہلک نہیں ہے اس لیے گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے۔
وزیرِ صحت منسکھ منڈاویا نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ ایسا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ بھارت میں استعمال کی جانے والی ویکسین اومکرون کے لیے مفید نہیں ہے۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ویکسین کے مؤثر ہونے کے تعلق سے بہت محدود ڈیٹا موجود ہے۔
انھوں نے یہ بھی بتایا کہ بھارت میں اب تک ایک ارب 38 کروڑ 89 لاکھ سے زائد افراد کو ویکسین لگائی جا چکی ہے۔
حکومت کے ذرائع کے مطابق اومکرون کے مثبت کیسز میں کسی کی بھی حالت سنگین نہیں ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق اب تک ملک میں 90 اومکرون سے متاثرہ افراد صحت یاب ہو چکے ہیں۔
دریں اثنا کیرالہ ہائی کورٹ نے اس درخواست کو خارج کر دیا جس میں کرونا ویکسین سرٹیفیکٹ سے وزیرِ اعظم نریندر مودی کی تصویر ہٹانے کی اپیل کی گئی تھی۔
عدالت نے درخواست کو غیر سنجیدہ، وقت کا زیاں، سیاسی بدنیتی پر مبنی اور شہرت طلبی کی کوشش قرار دیا اور درخواست دہندہ پر ایک لاکھ روپے کا جرمانہ عائد کیا۔
جسٹس پی وی کرشنن نے کہا کہ کوئی بھی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ وزیرِ اعظم کانگریس کے ہیں یا بھارتیہ جنتا پارٹی سے ان کا تعلق ہے یا کسی اور سیاسی جماعت کے ہیں۔ جب ایک بار آئین کے مطابق وزیرِ اعظم کا انتخاب ہو جاتا ہے تو وہ پورے ملک کے وزیرِ اعظم ہوتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ کوئی بھی شخص حکومت کی پالیسیوں سے عدم اتفاق کر سکتا ہے لیکن ویکسی نیشن سرٹیفیکٹ پر وزیرِ اعظم کی تصویر پر اسے شرمندہ نہیں ہونا چاہیے۔
درخواست گزار کو چھ ہفتوں کے اندر جرمانہ ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ بصورت دیگر کیرالہ اسٹیٹ لیگل سروس اتھارٹی درخواست گزر کی املاک فروخت کرکے جرمانہ وصول سکتی ہے۔
یہ درخواست ایک رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹی وسٹ پیٹر میالی پرمپیل نے داخل کی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ جب نجی اسپتالوں میں ویکسین لگوانے کی قیمت ادا کی جا رہی ہے تو پھر سرٹیفیکٹ پر وزیرِ اعظم کی تصویر کیوں ہے؟
ان کے خیال میں یہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔