اسامہ نور نے 2018 میں مہران یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی سے مکینیکل انجینئرنگ میں بیچلرز مکمل کیا اوراس کے بعد ملازمت کی تلاش شروع کردی البتہ تین برس سے زائد عرصہ گزرنے کےبعد بھی انہیں اپنے شعبے میں کوئی متعلقہ ملازمت نہیں مل پائی اور اب وہ اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے ایک پرائیویٹ اسکول میں پڑھا رہے ہیں۔
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ اسامہ نور جیسے لاکھوں پڑھے لکھے نوجوان پاکستان میں ملازمتیں نہ ملنے کی وجہ سے بے روزگار ہیں۔
تاہم دوسری جانب پاکستان کے وفاقی ادارہ برائے شماریات کا کہنا ہے کہ گزشتہ مالی سالی یعنی21-2020 کے دوران قومی معیشت نے 5.37 فی صد کی رفتار سے نمو پائی جو مئی میں دیے گئے عبوری تخمینے یعنی 3.94 فی صد سے کہیں زیادہ ریکارڈ کی گئی۔
وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر کا کہنا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کے دوسرے سال میں معیشت نے گزشتہ 14 سال کے دوران دوسری تیز ترین رفتار سے ترقی کی۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ملکی معیشت کی اس تیز رفتار ترقی کا راز موجودہ حکومت کی بہتر معاشی حکمت عملی رہا۔
حکومت کا دعویٰ ہے کہ لارج اسکیل مینوفیکچرنگ یعنی بڑی صنعتوں کی جانب سے بہتر شرح نمو سامنے آئی۔ گزشتہ مالی سال کے اختتام پر ان کی شرح نمو 15.27 فی صد پر رہی۔ جو کئی برس کے بعد صنعتوں کی تیز ترین ترقی تھی جن میں گاڑیاں، موٹر سائیکلیں، سیمنٹ، اسٹیل اور دیگر صنعتیں شامل ہیں۔
نہ صرف یہ بلکہ زراعت کے شعبے میں گندم تخمینے سے 2.2 ملین ٹن زیادہ یعنی 27.5 ملین ٹن ریکارڈ کی گئی اور یہ ایک سال میں ملک میں گندم کی سب سے زیادہ پیداوار بھی رہی۔
یہی نہیں بلکہ آلو، پیاز، ٹماٹر، مکئی، کھجور، کینو سمیت دیگر اجناس کی پیداوار تخمینے سے کہیں زیادہ رہیں۔ جب کہ گیس، خام تیل، کوئلہ کی بھی پیداوار میں اضافہ ہوا۔
ادھر نیشل اکاؤنٹس کمیٹی میں بیس ایئر کی تکنیکی تبدیلی بھی کی گئی ہے جس سے اب ملک کی معیشت کی مجموعی مالیت جسے مجموعی قومی پیداواریا جی ڈی پی بھی کہا جاتا ہے، اب 47 ہزار ارب روپے سے بڑھ کر 55 ہزار 488 ارب روپے ہوگئی ہے۔ یعنی امریکی ڈالرز میں پاکستان کا جی ڈی پی 16 فی صد اضافے کے ساتھ 346 ارب 757 کروڑ ڈالرز ہوگیا ہے۔
اسی طرح پاکستانیوں کی فی کس آمدنی 1442 امریکی ڈالرز سے بڑھ کر اب 1666 امریکی ڈالر ہوگئی ہے یعنی اس میں 200 ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔
لیکن دوسری جانب فی کس آمدنی بڑھنے کے ساتھ حکومت کے کل محصولات کم ہوکر جی ڈی پی کے 12.4 فی صد کے برابر ہوگئے ہیں۔ ٹیکس ریونیو بھی اب مجموعی قومی پیداوار کے 11 فی صد سے بھی کم ہوکر 9.5 فی صد پر آگئے ہیں۔ جب کہ ملک پر قرضوں کا حجم جی ڈی پی کے 71.8 فیصد پر آگیا ہے جو پہلے 83 فی صد سے بھی بلند تھا۔
اقتصادی ماہرین کے مطابق پاکستان کی برآمدات اس کے جی ڈی پی کا صرف 7.4 فی صد ہے جب کہ اس کے مقابلے میں درآمدات 15 فی صد سے بلند ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
اسی طرح بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی گئی ترسیلات زر جو رواں مالی سال کے اختتام پر 29.37 ارب ڈالر تھیں، وہ جی ڈی پی کا ساڑھے آٹھ فی صد بنتی ہیں جب کہ اس کے مقابلے میں براہ راست بیرونی سرمایہ کاری محض 0.5 فی صد بنتی ہے۔
'بہتر شرح نمو کی وجہ گزشتہ سال شرح نمو کم رہنا ہے'
معروف ماہر معیشت اور سابق وفاقی وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ سال 2021 میں شرح نمو میں بہتری لو بیس ایفیکٹ کا نتیجہ ہے۔ یعنی اس سے گزشتہ مالی 2020 میں شرح نمو منفی 0.39 رہی تھی اور اس سال صنعتی شعبہ برے طریقے سے متاثر ہوا تھا جس سے پیداوار 15 فی صد سے بھی کم رہی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ بیس کم ہونے کی وجہ سے اگلے سال 2021 میں شرح نمو زیادہ ہی آئے گی۔لیکن اگر سال 2021 کی شرح نمو کا موازنہ مالی سال 2019 کے عام حالات والے سال سے کیا جائے تو یہ تقریباً 4 فی صد بنتی ہے۔
ڈاکٹر حفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ سال 2020 میں کرونا کے بعد لاک ڈاؤن اور معاشی سست روی کی وجہ سے بے شمار لوگ بے روزگار ہوئے تھے البتہ اس کے بعد کے مالی سال 2021 میں بہتری آئی ہے۔ مگر ان کے بقول سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ہر سال لیبر فورس میں تقریباً 20 لاکھ نئے لوگ شامل ہوتے ہیں۔ عام حالات والے سال میں بھی ایسے تمام افراد کو ملازمتیں ملنے کے لیے شرح نمو کم از کم 6 فی صد ہونا ضروری ہے۔ مگر سال 2020 کے دوران تو جو لوگ پہلے سے برسر روزگار تھے، ان کی بھی ملازمتیں کرونا وبا کے دوران چھوٹ گئیں۔ ایسے میں افرادی قوت کا حصہ بننے والے نئے افراد کو بھی روزگار کی تلاش میں دقت کا سامنا ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہی وجہ ہے کہ معاشی نمومیں کچھ اضافے کے باوجود بھی ملازمتوں کے نئے مواقع اس قدر پیدا نہیں ہوئے جتنی ضرورت ہے اور آدھے سے بھی کم لوگ کرونا کے اثرات کے بعد ملازمتیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے بتایا کہ ملک میں اس وقت 70 لاکھ پڑھے لکھے نوجوان لوگ بےروزگار ہیں۔جب کہ ناخوانداہ اور عمر رسیدہ بےروزگار افراد کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔اس بات کی تصدیق کسی حد تک حکومت کے اپنے اعداد و شمار بھی کرتے نظر آتے ہیں۔
افرادی قوت سے متعلق اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی ستمبر 2021 میں سامنے آنے والی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ کرونا وبا کے خاتمے اور معاشی سرگرمیوں کی بحالی سے ملک کی لیبر مارکیٹ میں بھی بہتری دیکھی جارہی ہے۔ دو بڑے صوبوں پنجاب اور سندھ میں 2.4 فی صد ملازمتوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے جو رواں مالی سال کے آخر تک 2.7 فیصد تک پہنچنے کی توقع ہے۔ لیکن یہ شرح گزشتہ مالی سال میں عالمی وبا کی وجہ سے ملازمتوں میں آنے والی 5.4 فی صد کمی کےاب بھی نصف ہے۔
دعووں کے باوجود غربت کیوں کم نہیں ہوئی؟
ڈاکٹر حفیظ پاشا کے مطابق تقریباً دو کروڑ لوگ کرونا وبا کے دوران غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے، اگرچہ اب ان افراد کی تعداد میں کچھ کمی آئی ہے۔لیکن اب بھی بڑی تعداد غربت کی لکیر سے نیچے ہی ہے۔
جب ان سے سوال کیا گیا کہ حکومت کی جانب سے یہ کہا جاتا ہے کہ سال 2021 میں لسٹڈ کمپنیوں کی جانب سے 900 ارب روپے سے زائد کا منافع کمایا گیا ہے، کیا اس سے معاشی بہتری اخذ نہیں کی جاسکتی؟
اس پر ڈاکٹر حفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ درحقیقت کارپوریٹ سیکٹر کی سیل کا موازنہ اگر کرونا سے قبل کے نارمل سال سے کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ کوئی خاص اضافہ نہیں ہوا ہو۔ البتہ اگر اسے کرونا کے سال سے کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ بہت زیادہ اضافہ ہورہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس میں دوسرا نکتہ یہ بھی ہے کہ اگر یہ مان لیا جائے کہ ان کمپنیوں نے اس قدر زیادہ منافع کمایا بھی ہے، تو بھی حقیقت یہ ہے کہ ملک میں کم سے کم اجرت کے قانون پر عمل نہیں کیا جاتا۔ جس کی وجہ سے نچلے ترین طبقات کے پاس اس کے فوائد نہیں پہنچ پاتے۔ جبکہ امیر طبقات مزید امیر ہوجاتے ہیں۔
انہوں نے بتایاکہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 53 فی صد برسر روزگار لوگوں کوحکومت کی جانب سے طے شدہ کم سے کم اجرت بھی نہیں مل پاتی۔ جب کہ یہاں یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ ملک میں بہت بڑا کاروبار غیر رسمی اور غیر دستاویزی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ قانون پر عمل درآمد نہ ہونے، معیشت ڈاکومنٹڈ نہ ہونے سے عدم مساوات بھی مزید بڑھتی جارہی ہے اور پھر امیر طبقے ہی کو انکم ٹیکس قوانین میں تقریباً دو ہزار ارب روپے کی مراعات دینے سے معاشی نمو کے فوائد عام آدمی تک نہیں پہنچ پاتے۔
'ملازمتوں کے مواقع اس حساب سے پیدا نہیں ہو رہے, جتنی ضرورت ہے'
دوسری جانب ماہر معاشیات اور وزیر اعظم عمران خان کی معیشت پر مشاورتی کمیٹی میں شامل ڈاکٹر عابد سلہری کا کہنا ہے کہ شرح نمو میں اضافہ ملک میں معاشی سرگرمیوں کا عکاس ہے اورکرونا کے بعد کے سال میں معاشی سرگرمیاں تیزی سے بحال ہوئی ہیں۔
عابد سلہری کا کہنا تھا کہ جب معاشی سرگرمیاں زور پکڑتی ہیں تو ظاہر ہے کہ اس سے روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا ہورہے ہیں۔ خاص طور پر زراعت کے شعبے میں ملازمتوں کے مواقع زیادہ پیدا ہوئے ہیں۔
انہوں نے اس بات سےاتفاق کیا کہ یہ تو کہا جاسکتا ہے کہ ملازمتوں کے مواقع اس حساب سے پیدا نہیں ہو رہے، جتنی ضرورت ہے لیکن اس کے باوجود بھی حالات کرونا کے سال سے بہتری کی جانب گامزن ہیں اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو ’دی اکنامسٹ‘ جریدے کے نارمیلسی انڈیکس میں 50 ممالک میں دوسرے نمبر پر رکھا گیا ہے اور جس قدر ملازمتیں کھونے کا خدشہ تھا، اس قدر ملازمتیں نہیں گئیں اور پاکستان تیزی سے معاشی بحالی کی جانب سفر کررہا ہے۔
تاہم ڈاکٹر عابد سلہری کے خیال میں اب بھی ملک میں معیشت کے حجم کے مقابلے میں ٹیکس دینے کی شرح انتہائی کم ہے ۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ معیشت کو دستاویزی بنایا جائے۔ جب تک معاشی سرگرمیوں کو دستاویزی نہیں بنایاجائے گا، انہیں ٹیکس نیٹ میں نہیں لایاجاسکتا اور اس حوالے سے حکومت نے ڈاکومینٹیشن کے عمل کو تیز بنانے کے کئی بہتر اقدامات کیے ہیں جس میں پوائنٹ آف سیلز، سیلز ٹیکس کا استثنیٰ ختم کرنا اور جن کا ٹیکس دینا، ان کے طرز زندگی سے مطابقت نہیں رکھتا ان کی اسکروٹنی کرناضروری ہےجس سے حکومت کو ٹیکس محصولات بڑھانے میں مدد ملے گی۔
ادھر حکومت کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس کی کوشش ہے کہ چھوٹی صنعتوں اور چھوٹے کاروبار سے منسلک افراد کو قرضوں کی فراہمی ممکن بنائی جائے، انہیں اپنے پیروں پر کھڑے کرنے کے مواقع دیے جائیں ۔ تاکہ پیداوار بڑھانے کے ساتھ معاشی ترقی سے روزگار کے مواقع بڑھائے جاسکیں۔