پاکستان کی حکومت کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ایک جانب ملک میں گیس کے ذخائر نو فی صد سالانہ کی اوسط سے کم ہو رہے ہیں تو دوسری جانب نظام میں موجود گیس کی تقسیم پر بھی تنازعات کی وجہ سے صارفین کو اس کی سپلائی متاثر ہو رہی ہے۔
حکومت کے طے کردہ میرٹ آرڈر کے مطابق سردیوں میں سی این جی سیکٹر، نان ایکسپورٹ جنرل انڈسٹری اور صنعتوں کے کیپٹو پاور پلانٹس (گیس سے چلنے والے بجلی گھروں) کو گیس کی سپلائی منقطع کر دی جاتی ہے اور گیس کھاد بنانے والی فیکٹریز، ایکسپورٹ انڈسٹریز اور گھریلو صارفین کو فراہم کی جاتی ہے جہاں طلب تین سے پانچ گنا بڑھ جاتی ہے۔ یہ شعبے ترجیحی لسٹ میں دیگر شعبوں سے اوپر ہیں۔
اس کو سمجھنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ پاکستان میں گیس کے گھریلو صارفین کے علاوہ کھاد بنانے والی فیکٹریز، سیمنٹ فیکٹریز، جنرل انڈسٹریز (جس میں ایکسپورٹ اور نان ایکسپورٹ انڈسٹریز دونوں شامل ہیں) بجلی بنانے والے کارخانے اور ٹرانسپورٹ سیکٹر بھی شامل ہیں۔
اس صورتِ حال میں حکومت نے گیس کے بجائے بجلی کے استعمال پر ایک رعایت کا اعلان کیا ہے جس کے مطابق ایسے صارفین جنہوں نے گزشتہ سال کے مقابلے میں بجلی کے اضافی یونٹس استعمال کیے۔ ان کی فی یونٹ قیمت 12 روپے 96 پیسے مقرر کی گئی ہے اور ان اضافی یونٹس پر کوئی فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ یا سہہ ماہی ٹیرف ایڈجسٹمنٹ لاگو نہیں ہوگی۔
'اب حکومت کہتی ہے گیس نہیں بجلی لے لو'
معروف صنعت کار اور کراچی چیمبر آف کامرس کے سابق صدر زبیر موتی والا کا کہنا ہے کہ گیس کی کمی سے صنعتوں بالخصوص ٹیکسٹائل کی صنعت کو شدید مسائل کا سامنا ہے جس کا پاکستان کی برآمدات میں حصہ 60 فی صد کے قریب ہے۔
اس سوال پر کہ صنعت کار قومی گرڈ میں موجود اضافی بجلی کے بجائے گیس لے کر اپنی بجلی بنانے پر کیوں انحصار کرتے ہیں؟ ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں صنعت کاروں کو اس مقصد کے لیے ترغیب دی گئی۔ حکومت نے قرضے فراہم کیے اور کہا کہ وہ بجلی کے بجائے گیس حکومت سے حاصل کریں۔ کپیپٹو پاور پلانٹس لگائیں اور اس سے بجلی پیدا کرکے صنعتیں چلائیں۔
ان کے بقول اسی دوران ملک میں ٹرانسپورٹ بھی سی این جی پر چلائی جانے لگی۔ اب جب وہ باہر سے بھاری مشینری منگوا کر بھاری سرمایہ کاری کر چکے ہیں جس سے صنعتوں کو بلا تعطل بجلی بغیر کسی لائن لاسز کے مل رہی ہے تو کہا جاتا ہے کہ بجلی پر منتقل ہو جائیں، یہ کیسے ممکن ہے؟
زبیر موتی والا کے مطابق اس کی دوسری وجہ بجلی مہیا کرنے کے لیے بہتر ٹرانسمیشن لائنز اور گرڈ اسٹیشنز نہیں ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اگر وہ صرف کراچی ہی کی بات کریں تو صنعتیں چلانے کے لیے بلا تعطل بجلی کی فراہمی ممکن بنانے کے لیے مطلوبہ سرمایہ کاری کی ہی نہیں گئی جس میں مزید کئی سال لگ سکتے ہیں اور اس کے انتظار میں صنعتیں بند نہیں کی جا سکتیں۔
انہوں نے بتایا کہ تمام صنعتوں کو گیس کے بجائے بجلی پر چلانے کے لیے 700 سے 800 میگاواٹ بجلی اضافی فراہم کرنے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے۔ اسی لیے صنعت کار بجلی کے بجائے گیس کو ترجیح دیتے ہیں اور اس کی سپلائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔
'لائن لاسز اور چوری کو روک کر گیس کی فراہمی پوری کی جا سکتی ہے'
زبیر موتی والا کا کہنا ہے کہ سندھ بھر کی صنعتوں کو اس وقت 400 ایم ایم سی ایف ڈی کے لگ بھگ گیس کی ضرورت ہے۔ جب کہ سندھ سے 2000 ایم ایم سی ایف ڈی گیس نکلتی ہے جس میں سے آدھی اسی صوبے کو فراہم کی جاتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ بلوچستان میں سوئی سے سوئی سدرن گیس کمپنی (جو سندھ بلوچستان کو گیس کی فراہمی کی ذمہ دار ہے) کو 125 ایم ایم سی ایف ڈی گیس ملتی ہے جب کہ وہاں سے سوئی ناردرن گیس کمپنی (جو پنجاب، خیبر پختونخوا، کشمیر، گلگت بلتستان اور وفاقی دارالحکومت کو گیس فراہم کرنے کی ذمہ دار ہے) کو 190 ایم ایم سی ایف ڈی گیس فراہم کی جاتی ہے۔
ان کے خیال میں اگر گیس بلوچستان کے بعد سندھ کی صنعتوں کو فراہم کی جائے تو معیشت کو سہارا مل سکتا ہے۔ جب کہ دوسری جانب گھریلو صارفین کو گیس کی فراہمی کے لیے سیلنڈرز اور باؤزرز کی مدد سے فراہم کی جائے۔ کیوں کہ پائپ لائن سے گیس فراہم کرنے میں ریکوری، چوری اور لائن لاسز کی مد میں سالانہ اربوں روپے کے نقصانات ہو رہے ہیں۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ گیس کی لائن لاسز میں ہونے والے نقصانات ہی کو پورا کر لیا جائے تو صنعتوں کے کیپٹو پاور پلانٹس کو اب بھی گیس پوری کی جاسکتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ صنعتوں کو چلانے کے لیے گیس فراہم کی جاتی تو ملک کو معاشی مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑتا اور آج ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر اس قدر کم نہ ہوتی۔
'بجلی کے مقابلے میں گیس 40 فی صد سستی پڑتی ہے'
دوسری جانب توانائی کے امور کے ماہر اور پاک کویت انویسٹمنٹ کمپنی میں ہیڈ آف ریسرچ سمیع اللہ طارق کا کہنا ہے کہ صنعت کار قومی گرڈ سے بجلی لینے میں اس لیے ہچکچاتے ہیں کیوں کہ وہ انہیں مہنگی پڑتی ہے۔ جب کہ گیس سے بجلی پیدا کرنا انہیں تقریباً 40 فی صد سستا سودا ہے۔ ان کے بقول ایسے میں وہ کیوں قومی گرڈ سے بجلی حاصل کریں گے؟
ان کا کہنا تھا کہ اگر صنعتوں کو سستا خام مال نہیں ملے گا تو ان کی مصنوعات دیگر مصنوعات کے مقابلے میں مسابقت کھو بیٹھیں گی اور مال نہیں بِکے گا۔ اس لیے ان کے لیے یہ زندگی موت کا مسئلہ بن جاتا ہے۔
'صنعتی صارفین کے مقابلے میں گھریلو صارفین کو گیس انتہائی سستی مل رہی ہے'
سمیع اللہ طارق کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ گیس کی کمی بڑھتی چلی جارہی ہے اس لیے گھریلو صارفین کو گیس کے متبادل کی جانب لانا ہوگا۔ جب کہ دوسری جانب گیس کی قیمت بہت کم ہے۔
انہوں بتایا کہ حکومت کو گھریلو صارفین کو بیچنے والی گیس کی اوسط قیمت تقریباً 600 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو پڑ رہی ہے جب کہ صارفین کو یہ قیمت زیادہ سے زیادہ 150 روپے تک ادا کرنی ہوتی ہے۔ اسی طرح درآمد شدہ گیس بھی اوسطً 15 امریکی ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو قیمت کی ہے۔
ان کے خیال میں آنے والے برسوں میں ان حقائق کی روشنی میں لگتا ہے کہ حکومت گھریلو صارفین کو گیس کی فراہمی کو ترجیحی فہرست میں نیچے لے جائے گی کیوں کہ صنعتی استعمال کے لیے اب بھی گیس ضروری ہے۔
سمیع اللہ طارق کا کہنا ہے کہ پاکستان دنیا میں گیس پیدا کرنے والا 26 واں بڑا ملک ہے اور اس کے مقابلے میں نائجیریا دنیا میں گیس پیدا کرنے والے 12 واں بڑا ملک ہے۔ پاکستان میں گیس نیٹ ورک ڈیڑھ لاکھ کلو میٹر پر محیط ہے جب کہ نائجیریا کا نیٹ ورک صرف 6 ہزار کلو میٹر پھیلا ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں سیاسی رہنماؤں نے گیس کی فراہمی کو اپنی انتخابی حکمتِ عملی کے تحت استعمال کیا اور اس سے لوگوں کی توقعات بڑھتی چلی گئیں جب کہ گیس کے ذخائر کم ہوتے چلے گئے۔
تاہم سمیع اللہ طارق نے اس بات سے بھی اتفاق کیا کہ صنعتوں کو بھی سسٹم میں وافر مقدار میں بجلی کے استعمال کی جانب راغب کرنے کی ضرورت ہے۔ جہاں بجلی کیپٹو پاور کے ذریعے پیدا کی جارہی ہے، انہیں تو قومی گرڈ کی بجلی پر منتقل کیا جاسکتا ہے۔ لیکن جہاں گیس بطور خام مال استعمال ہو رہی ہے۔ جیسے کھاد کی تیاری میں اور کچھ صنعتوں میں گیس سے بھاپ تیار کرکے پراسس کیا جاتا ہے، اس میں گیس کی ضرورت بہرحال رہی گی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ گیس کے نئے ذخائر تلاش کرنے کے لیے حکومت کی جانب سے نئے لائسنس کا اجراء تو کیا گیا ہے لیکن اگر آج بھی کوئی بڑا ذخیرہ مل جاتا ہے تو اسے گیس کے قومی نیٹ ورک سے منسلک کرنے میں کم از کم چار سال لگ سکتے ہیں۔
دوسری جانب ماہرین کے مطابق اب وقت آگیا ہے کہ گیس کی اوسط قیمت کا تعین کیا جائے۔ کیونکہ اگر حکومت کو گیس کی اوسط قیمت کوئی 600 روپے پڑ رہی ہے تو حکومت نے کیپٹو پاور پلانٹ چلانے والوں، سی این جی سیکٹر سے تو تقریباً 1000 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو وصول کر رہی ہے جب کہ اس کے مقابلے میں گھریلو صارفین سے محض 150 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو وصول کررہی ہے۔
ماہرین کے مطابق حکومت کو غریب طبقے کو فائدہ پہنچانے کے لیے احساس پروگرام کو استعمال کرتے ہوئے کم آمدنی والے طبقے کو براہِ راست سبسڈی فراہم کرنی چاہیے۔
'کراچی میں گیس بحران کی اصل وجہ عدالتی حکم امتناع ہے'
ادھر وفاقی وزیر حماد اظہر کا کہنا ہے کہ اس بار کراچی میں گیس بحران کی اصل وجہ عدالتی حکم امتناع ہے جس کے تحت سوئی گیس کمپنی کو وفاقی کابینہ کی ترجیحی فہرست کے برخلاف جنرل انڈسٹری اور بجلی پیدا کرنے والے کیپٹو پاور پلانٹس کی گیس منقطع کرنے سے روک دیا ہے اور اس کی وجہ سے گھریلو صارفین کو گیس کی فراہمی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔