|
کراچی/اسلام آباد -- حکومتِ پاکستان نے رواں مالی سال سے متعلق معاشی سروے جاری کر دیا ہے جس کے مطابق حکومت اس سال کئی اہم معاشی اہداف حاصل نہیں کر سکی۔
ملک میں معاشی ترقی کی رفتار 2.38 فی صد رہی جب کہ حکومت نے اس سال 3.5 فی صد کا ہدف مقرر کیا تھا۔ تاہم یہ رفتار گزشتہ سال کے مقابلے میں زیادہ رہی جب ملکی معیشت نے محض 0.39 کی رفتار سے ترقی کی تھی۔
اسی طرح ملک میں کپاس اور گندم کی پیداوار میں اضافہ ہوا۔ لیکن مکئی اور گنے کی پیداوار میں کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ جب کہ مہنگائی بڑھنے کی سالانہ اوسط رفتار 26 فی صد رہی اور حکومت نے اس کا ٹارگٹ 21 فی صد مقرر کیا تھا۔
اکنامک سروے آف پاکستان کے مطابق ملک میں زرعی ترقی کی رفتار چھ فی صد سے اُوپر رہی جب کہ صنعتی اور خدمات کے شعبوں میں ترقی کی رفتار 1.21 فی صد رہی۔
فی کس آمدنی
ملک کی فی کس آمدنی 1680 امریکی ڈالر ریکارڈ کی گئی جب کہ سرمایہ کاری کی شرح جی ڈی پی کا 13 فی صد ریکارڈ کی گئی۔
سروے پیش کرتے ہوئے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ حکومت رواں سال جاری کھاتوں کے خسارے یعنی کرنٹ اکاونٹ خسارے میں خاطر خواہ کمی لانے میں کامیاب رہی ہے۔
گزشتہ مالی سال یعنی 2023-2022 کے دوان پاکستانی روپیہ 29 فی صد گراوٹ کا شکار ہوا۔ لیکن رواں سال اس میں قدرے استحکام دیکھا گیا۔
اس کی بنیادی وجہ اسمگلنگ اور ہنڈی حوالہ کے خلاف حکومتی اقدامات کے علاوہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ پر حکومت کے انتظامی ایکشن بنے۔
دوسری جانب اسٹیٹ بینک اور نجی بینکوں نے بھی اس طرح کے اسٹرکچرل اقدامات کیے گئے جس سے روپے کی قدر مستحکم رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہی ہے کہ وہ سٹہ بازی جو اس وقت ہو رہی تھی، یہ ملک میں دوبارہ واپس نہ آئے۔
Your browser doesn’t support HTML5
وزیرِ خزانہ کا کہنا تھا کہ ملک میں مہنگائی بڑھنے کی شرح گزشتہ سال 38 فی صد سے کم ہو کر اب 11.8 فی صد پر آ گئی ہے۔ امید ہے کہ یہ جلد سنگل ڈیجٹ میں چلی جائے گی۔ مہنگائی میں کمی ہی کے باعث ملک میں شرح سود میں کمی ممکن ہو سکی ہے۔
اُن کے بقول ملک میں اس سال ریونیو کلیکشن میں 13 فی صد اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اسٹاک مارکیٹ میں بھی تیزی دیکھی جا رہی ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ گزشتہ سال ہم ڈیفالٹ کے دہانے پر کھڑے تھے اور قومی خزانے میں محض دو ہفتے کی درآمدات کے پیسے بچے تھے۔ لیکن اب اسٹیٹ بینک کے ذخائر کافی مستحکم ہیں۔ یہ تب ہی ممکن ہوا جب پاکستان نے آئی ایم ایف کے اسٹینڈ بائی پروگرام پر من و عن عمل درآمد کیا۔
اس کے باوجود اس وقت بھی پاکستان کے معاشی حالات ایسے ہیں کہ ہمارے پاس آئی ایم ایف کے پاس جانے کے سوا کوئی اور پلان بی موجود نہیں۔
وزیر خزانہ نے اس بات کا یقین دلایا کہ آئی ایم ایف کے جائزہ مشن سے نئے قرض پروگرام پر بات چیت کافی مفید رہی ہے اور یہ ملک میں جاری تعمیری اصلاحاتی پروگرام ہی کے باعث ممکن ہو سکا ہے۔
نئے بجٹ سے متعلق اہپنی ترجیحات بیان کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے ایک بار پھر کہا کہ ملک میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کے تناسب کو بڑھانا ہو گا۔ جب کہ توانائی سیکٹر اور سرکاری اداروں کے نقصانات کو کم کرنا ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نجکاری کے پروگرام پر بھی تیزی سے عمل کر رہی ہے اور اسی لیے پی آئی اے اور اسلام آباد ایئرپورٹ کی نجکاری پر کافی پیش رفت ہو چکی ہے۔ امید ہے کہ پی آئی اے کی نجکاری کا عمل اگست تک مکمل ہو جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ اس کے بعد یہ عمل روکا نہیں جائے گا بلکہ لاہور اور کراچی ایئرپورٹ کو بھی نجی شعبے کے حوالے کیا جائے گا۔
ایک سوال کے جواب میں وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ ملک خیرات سے نہیں بلکہ ٹیکس ہی سے چل سکتے ہیں۔ سب کو اپنا حصہ ڈالنا ہو گا اور توانائی کے شعبے کو بھی ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے جس میں تقریبا 500 ارب روپے سالانہ کی چوری ہے۔
لیکن اب حکومت ایک ہزار ارب روپے کا خسارہ برداشت نہیں کر سکتی۔ اس کے لیے ہمیں ہر ممکن اقدامات کرنے ہوں گے۔