طالبان اور افغان حکومت کے نمائندہ وفد کے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہونے والے مذاکرات بے نتیجہ رہنے کے باوجود پاکستان سمیت خطے کے دیگر ممالک اُمید ظاہر کر رہے ہیں کہ سیاسی تصفیہ ہی افغان تنازع کا حل ہے۔
پاکستان کے دفترِ خارجہ نے پیر کو ایک بیان میں کہا تھا کہ بامقصد اور جامع مذاکرات کے ذریعے ہی افغانستان میں تشدد میں کمی اور دیرپا امن کی راہ ہموار ہو گی۔
خیال رہے کہ 17 اور 18جولائی کو افغان طالبان اور حکومتی وفد کے درمیان مذاکرات کے دو ادوار ہوئے تھے تاہم فریقین تنازع کے حل کی جانب کوئی بڑی پیش رفت نہیں کر سکے تھے۔
یہ مذاکرات ایسے وقت میں ہوئے تھے جب افغانستان میں امریکی فوج کے انخلا کے دوران طالبان اور افغان فورسز کے درمیان مختلف علاقوں میں لڑائی جاری ہے۔
دوسری جانب ماہرین کا کہنا ہے کہ دوحہ مذاکرات فریقین کے لیے اعتماد سازی کا بہترین پلیٹ فارم تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کاردان یونیورسٹی میں شعبہ بین الاقوامی تعلقاتِ عامہ کے سربراہ فہیم سادات کا کہنا تھا کہ افغان وفد کی یہ کوشش تھی کہ مذاکرات کے سلسلے کو دوبارہ بحال کیا جائے۔
اُن کے بقول اسی مقصد کے تحت طالبان کے ساتھ مذاکرات میں ہزارہ، ازبک، تاجک اور پشتون برادری کے ایسے گروپس جن کے خلاف طالبان نبرد آزما رہے ہیں، اُن کے اراکین کو بھی افغان وفد میں شامل کیا گیا۔
فہیم سادات کہتے ہیں کہ اس میٹنگ کا مشترکہ اعلامیہ بھی کافی حوصلہ افزا ہے جو کہ اعتماد سازی کی جانب ایک مثبت قدم ہے۔ کیوں کہ اس میں مستقبل میں سویلین انفراسٹرکچر اور عام شہریوں کی ہلاکتوں سے اجتناب کے بارے میں کہا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کرونا وبا سے نمٹنے کے حوالے سے بھی فریقین متفق دکھائی دیتے ہیں۔
فہیم سادات کا کہنا تھا کہ اس وقت افغان حکومت کو طالبان کے وعدوں پر اعتماد نہیں ہے۔ کیوں کہ دوحہ امن معاہدے کے نتیجے میں افغان حکومت نے طالبان کے پانچ ہزار قیدی رہا کیے تاہم خون ریزی کے واقعات میں نمایاں حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا۔
اس کے ساتھ ساتھ امریکی انخلا کے دوران جو خلا پیدا ہوا اس سے بھی طالبان نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔
'کاردان یونیورسٹی' کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے سربراہ کا مزید کہنا تھا کہ انخلا کے دوران افغان حکومت کو مستقبل میں سیکیورٹی کے ساتھ ساتھ معاشی لحاظ سے بھی چیلنجز درپیش ہونے کی فکر لاحق تھی۔
تاہم اُن کے بقول صدر اشرف غنی کے دورۂ امریکہ کے موقع پر امریکی صدر نے افغانستان کی فوج اور ملک کے لیے معاشی مدد جاری رکھنے کا اعلان کیا۔
یکم مئی کے بعد سے افغانستان میں امن و امان کی صورتِ حال تشویش ناک شکل اختیار کر گئی ہے۔ دوحہ مذاکرات کے دوران بھی اس میں کسی بھی قسم کی کمی دیکھنے میں نہیں آئی۔
طالبان کا کہنا ہے کہ انہوں نے دو سو کے قریب اضلاع اور اہم سرحدی گزرگاہوں کا کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔
فہیم سادات کا مؤقف ہے کہ حکومت نے اب زیادہ تر علاقوں میں جارحانہ پالیسی اختیار کر لی ہے اور جو علاقے افغان فورسز نے تیکنیکی حکمتِ عملی کے تحت چھوڑے تھے ان میں سے کافی واپس حاصل کر لیے گئے ہیں۔
افغان امور کے ماہر اور شدت پسندی کے موضوع پر تحقیق کرنے والے سوئیڈن میں مقیم محقق، عبدالسید کا کہنا ہے کہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان عید سے قبل ہونے والے مذاکرات کے متعلق شروع میں کافی توقعات تھیں۔
اُن کے بقول سابق افغان صدر حامد کرزئی اور حزبِ اسلامی کے رہنما گلبدین حکمت یار کا نام بھی مذاکراتی وفد میں شامل تھا جس کے بعد یہ اُمید پیدا ہوئی تھی کہ شاید عارضی جنگ بندی اور مذاکرات میں پیش رفت ہو سکے، لیکن یہ دونوں شخصیات بعض وجوہات کی بنا پر افغان وفد کے ہمراہ دوحہ نہیں گئے۔
عبدالسید کا مزید کہنا تھا کہ اب اس صورتِ حال سے مایوس ہو کر افغان عوام اور تاجر مقامی سطح پر جنگ بندی کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔
حال ہی میں قندھار کے سرکردہ عمائدین اور تاجروں نے طالبان قیادت اور حکام سے الگ الگ ملاقاتوں میں عید کے موقع پر آٹھ روزہ جنگ بندی کی استدعا کی تھی جس کو طالبان نے تو مان لیا۔ تاہم افغان حکومت نے اس پر مشروط آمادگی ظاہر کی تھی لیکن ان شرائط کو طالبان نے مسترد کر دیا تھا۔
خیال رہے کہ طالبان عید کے موقع پر عارضی جنگ بندی کا اعلان کرتے رہے ہیں لیکن اس عید کے موقع پر جنگ بندی پر اتفاقِ رائے نہیں ہو سکا۔
گو کہ افغان حکومت اور طالبان نے مذاکرات کے سلسلے کو جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ فریقین کے درمیان اختلافات افغانستان میں طرزِ حکمرانی پر ہیں۔
طالبان کا یہ اصرار رہا ہے کہ افغانستان میں اسلامی حکومت قائم ہونی چاہیے جب کہ دیگر افغان دھڑوں کو یہ خدشات ہیں کہ طالبان 25 برس پہلے والا نظام دوبارہ نافذ کرنا چاہتے ہیں جس میں انسانی حقوق اور خواتین کو حاصل حقوق متاثر ہو سکتے ہیں۔