اوباما انتظامیہ نے مشرقِ وسطیٰ کی اُس سیاسی بد امنی میں شریک مظاہرین کے حقوق کی کھلی حمایت کی ہے جِس کی وجہ سے مصری حکومت اور امریکہ کے کلیدی اسٹریٹجک اتحادیوں کے وجود کے لیے خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اِس حکمتِ عملی سے یہ توقع کی جارہی ہے کہ افراتفری کے نتیجے میں ایسی نئی حکومتیں اُبھریں جو اعتدال پسند ہوں اور امریکی مفادات کی حامی ہوں۔
امریکی مؤقف کا لہجہ خود صدر اوباما نے مقبول وڈیو ویب سائٹ ‘یو ٹیوب’ پر جمعرات کو آکر متعین کیا جب اُنھوں نے کہا کہ اگرچہ صدر حسنی مبارک نے اسرائیل فلسطینی امن عمل جیسے کلیدی مسائل میں امریکہ کا ساتھ دیا ہے، مصر میں سیاسی اصلاح کی ضرورت عرصے سے محسوس کی جارہی ہے اور امریکہ نے اُس کا نوٹس لیا ہے۔
صدر اوباما نے کہا کہ میں نے ہمیشہ اُن سے کہا ہے کہ وہ یہ بات یقینی بنائیں کہ طویل وقتی نقطہٴ نظر سے مصر کی خوشحالی کے لیے یہ انتہائی ضروری ہے کہ وہ اصلاحات کریں، سیاسی اصلاحات، اقتصادی اصلاحات اور اب آپ دیکھ رہے ہیں کہ لوگوں کے دلوں کی حسرتوں کا مظاہرہ سڑکوں پر ہو رہا ہے۔اِس وقت میں بھی یہی امید کرتا ہوں کہ مصر کے مسائل کو سلجھانے کا طریقہ تشدد نہیں ہے۔ اِس لیے حکومت کو احتیاط کرنی ہوگی کہ وہ تشدد کا سہارا نہ لے اور سڑکوں پر جو لوگ نکل آئے ہیں وہ بھی تشدد سے باز رہیں۔
مصر نے اسرائیل کے ساتھ جو امن معاہدہ کر رکھا ہے امریکہ کی علاقائی پالیسی میں اُس کی کلیدی حیثیت رہی ہے۔اُسی طرح سے جیسے تیونس کی حال ہی میں معزول ہونے والی حکومت کے ساتھ اعتدال پسندی کی تھی، یا پھر حال ہی میں یمنی حکومت کے ساتھ جسے بھی سڑکوں پر ایسے ہی احتجاجی مظاہروں کا سامنا ہے دہشت گردی کے خلاف تعاون کیا ہے۔
مراقش میں سابق امریکی سفیر مارک گِنزبرگ جو اب ‘ہفنگٹن پوسٹ’ کی ویب سائٹ کے لیے کالم لکھتے ہیں کہتے ہیں کہ انتظامیہ کی حکمتِ عملی میں خطرے پوشیدہ ہیں۔وہ یاد دلاتے ہیں کہ 2006ء میں جب امریکہ نے فلسطینیوں کے لیے آزادانہ انتخابات کی حمایت کی تھی تو اُس کے نتیجے میں حماس کی انتہا پسند تحریک برسرِ اقتدار آئی تھی۔
واشنگٹن میں امریکی ادارہ برائے امن میں مشرقِ وسطیٰ اصلاح پر کام کرنے والے اسکالر ڈینل برمبرگ کا کہنا ہے کہ امریکہ کے اتحادی حسنی مبارک غالباً اپنے خاتمے کے قریب پہنچ گئے ہیں لیکن یہ ضروری نہیں کہ مصر میں اِس کا سیاسی انجام امریکہ کے لیے پسپائی ہو۔
اُنھوں نے کہا کہ مصر کی موجودہ صورتِ حال ایک موقع فراہم کر رہی ہے حزبِ اختلاف اور شاید خود ریاست کے اندر اصلاح پسندوں کو کہ وہ ایک ایسے صدارتی انتخاب کے لیے راہ ہموار کریں جِس میں نئے امیدوار ہوں اور جِس میں دانستہ کوشش کی جائے کہ حزبِ اختلاف اِس میں حصہ لے سکتی ہے۔
یہ ایک موقع اِس وقت ہے لیکن موجودہ حالات میں یہ بتانا مشکل ہے کہ اگر حسنی مبارک نے بھی انتخاب لڑا اور وہ جائز طور پر منتخب ہوگئے تو پھر یہ ایسا نتیجہ ہوگا جو اِس وقت کوئی بھی ماننے کے لیے تیار نہیں ہوگا۔
شمالی افریقہ کے امور کے ماہر ولیم زرٹمین، جو جان ہاپکنز یونیورسٹی کے پروفیسر امیریٹس ہیں، کہتے ہیں کہ صدر مبارک کے ساتھ 30سالہ تعلقات سے قطع نظر امریکہ کے لیے درست یہی ہے کہ وہ مصر کے احتجاجی مظاہرین اور اُن کی جمہوری امنگوں کی حمایت کرے۔
اوبامہ انتظامیہ کے مؤقف کی وجہ سے اِس خطے میں امریکہ کے باقی ماندہ اتحادیوں کا رویہ معذرت خواہانہ ہوگیا ہے۔
اردن کے وزیرِ خارجہ نصر جُودہ نے جِس نےاِس ہفتے واشنگٹن میں وزیرِ خارجہ کلنٹن سے ملاقات کی کہا ہے کہ اردن میں جو مظاہرے ہوئے ہیں وہ شاہ عبد اللہ کے خلاف نہیں بلکہ خطے میں موجودہ اقتصادی حالات کے خلاف احتجاج تھا۔
اُن کے ساتھ کھڑی وزیرِ خارجہ کلنٹن نے کہا کہ اردن میں نومبر میں جو انتخابات ہوئے تھے وہ بین الاقوامی مبصرین کے نزدیک آزادانہ اور منصفانہ تھے۔
تیونس کے صدر زین الدین بن علی کے معزول ہونے سے ایک روز قبل مسٹر کلنٹن نے قطر کی ایک تقریب میں کہا تھا کہ اگر عرب ملکوں نے اپنے سیاسی نظام اور معیشت لبرل خطوط پر استوار نہ کیا تو اندیشہ یہی ہے کہ وہ ریت میں دھنس جائیں گے۔