امریکی صدر براک اوباما نے مصر کے صدر حسنی مبارک کے ساتھ ٹیلی فون پرگفتگو میں اُن سے کہا ہے کہ وہ ٹھوس اقدامات کر کے مصری عوام کے ساتھ کیے گئے اصلاحات کے اپنے وعدوں کو پور اکریں۔
دونوں رہنماؤں کے درمیان یہ گفتگو جمعہ کی شب 82 سالہ صدر حُسنی مبارک کے قومی ٹیلی ویژن پر خطاب کے فوراََ بعد ہوئی ۔ملک میں احتجاجی مظاہرے شروع ہونے کے بعد مصری صدر کی ٹی وی پر یہ پہلی جھلک تھی۔مظاہرین مصری صدر سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کررہے ہیں۔
وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے صدر اوباما نے کہا کہ انھوں نے مصری حکومت سے کہا ہے کہ وہ مظاہرین کے خلاف تشدد سے گریز کرے اور انٹرنیٹ سمیت تمام مواصلاتی رابطوں کو بحال کرے جو پچھلے چوبیس گھنٹوں سے منقطع ہیں۔
ٹی وی پر اپنے خطاب میں حسنی مبارک نے سیاسی اور اقتصادی اصلاحات نافذکرنے کی یقین دہانی کرائی۔ انھوں نے اپنی کابینہ کو بھی تحلیل کرتے ہوئے ہفتہ کو ایک نئی کابینہ تشکیل دینے کا وعدہ کیا۔ مصری صدر نے کہا کہ احتجاجی مظاہروں کا مقصد ملک کو غیر مستحکم کرنے کی سازش ہے۔
منگل کو مظاہروں کا سلسلہ شروع ہونے کے بعد جمعہ کا دن مصر کی تاریخ کا پرتشد دن ثابت ہوا۔ملک میں عمارتوں کو نذر آتش کرنے کے واقعات پیش آتے رہے جبکہ سڑکوں پر ٹینک گشت کرتے رہے۔ لاکھوں لوگ کرفیو کی پابندیوں کی پرواہ کیے بغیرصدر حسنی مبارک کے تیس سالہ دور کے خاتمے کا مطالبہ کرتے رہے۔
ہسپتال عہدے داروں کا کہنا ہے کہ جمعہ کو سویز میں کم ازکم تیرہ افراد ہلاک ہوئے جبکہ ملک بھر میں سو سے زائد مظاہرین زخمی بھی ہوئے۔
دارالحکومت قاہرہ میں مظاہرین نے سکیورٹی فورسز کی گاڑیوں کو گھیرے میں لے لیااور ایک گاڑی کو بعد میں نذر آتش کردیا گیا۔ سرکاری ٹیلی ویژ ن کی عمارت پر بھی دھاوا بول کراُسے آگ لگانے کی کوشش کی گئی۔
شہر کے مختلف مقامات پر آگ کے شعلے اٹھتے دکھائی دے رہے ہیں جن میں حکمران نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے صدر دفتر بھی شامل ہے۔ عینی شاہدین نے سڑکوں پر فائرنگ کی آوازیں سننے کی اطلاع بھی دی ہے۔