مصری افواج پر جزیرہ سینا میں شہری حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے الزامات

فائل

انسانی حقوق کے ادارے ہیومن رائٹس واچ کے مطابق مصری سیکورٹی فورسز اور پولیس نے شمالی جزیرہ نما سینا میں شدت پسندوں کے خلاف آپریشن کے دوران مبینہ طور پر سنگین شہری حقوق کی خلاف ورزیاں کی ہیں اور، بقول اس کے، کچھ کارروائیاں تو جنگی جرائم میں بھی شمار کی جا سکتی ہیں۔

ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کے مطابق، علاقے میں سیکورٹی فورسز نے شہریوں کے خلاف مبینہ بڑے پیمانے پر ماورائے عدالت قتل، جبری بے دخلی اور اجتماعی سزاؤں کا استعمال کیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مصری فورسز نے مقامی پر تشدد گروہوں کو ٹریننگ اور اسلحہ بھی فراہم کیا ہے، جو شہریوں کے خلاف مبینہ زیادتیوں میں ملوث ہیں۔

ادارے نے فورسز کی جانب سے’’50 بے ضابطہ گرفتاریوں کو رپورٹ کیا جن میں سے 39 کیسز میں گرفتار ہونے والے ملزمان غائب کر دیے گئے‘‘۔

رپورٹ میں مبینہ ٹارچر کی جگہوں کا ذکر بھی ہے، جہاں 12 برس تک کے کم سن بچوں کو بھی قید کیا گیا۔

مصری حکام نے اس رپورٹ کے مندرجات سے انکار کیا ہے۔

ادارے کی رپورٹ میں داعش کے مقامی حلیفوں کی جانب سے بھی علاقے میں پرتشدد کارروائیوں کا ذکر ہے، جن میں اغوا اور قتل مبینہ واقعات شامل ہیں۔

داعش کی مقامی شاخ نے اکتوبر 2015 میں میٹرو جیٹ کی فلائٹ نمبر 9268 کو مار گرانے کا دعویٰ کیا تھا، جس میں 224 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ یہ ہوائی جہاز شرم الشیخ سے پرواز کرنے کے بعد جزیرہ نما سینا میں گر کر تباہ ہو گیا تھا۔

2013 میں مصری صدر محمد مرسی کو صدارت سے ہٹانے کے بعد تب کے وزیر دفاع، عبد الفتح السیسی کی جانب سے شمالی جزیرہ سینا میں پرتشدد کارروائیاں شروع ہو گئیں، جس کے بعد سے حکومت کی جانب سے علاقے میں ہزاروں فورسز کو امن قائم کرنے کے لیے بھیجا گیا۔

اس رپورٹ میں مصری حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ علاقے میں ریڈ کراس کو کام کرنے کی اجازت دے اور عالمی اداروں سے یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ مصر کو دی جانی والی تمام امداد تب تک روک دے جب تک تحقیقات کے بعد یہ معلوم نہ کر لیا جائے کہ تمام پرتشدد کارروائیاں روک دی گئی ہیں۔