چڑیا گھر، ریس کورس، لارنس گارڈن، ونڈر لینڈ، واٹر پارکس۔۔۔ لاہور کی ایسی کوئی جگہ نہیں جہاں ہم عید کے تین دنوں میں اپنے بچوں کو لیکر نہ گئے ہوں۔ تفریح گاہ میں داخلے سے لیکر جھولوں تک اور پانی سے لیکر کھانے تک سب اپنی جیب سے خریدے۔ لیکن، پھر بھی بچوں کے گھومنے پھرنے کی خواہش ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ دُکانداروں کے ڈبے بھرتے جا رہے ہیں اور ہماری جیب ہلکی ہو گئی ہے۔
پانچ بچوں کے والد، مسٹر ایاز کی ناراضگی بجا ہے۔ لیکن، وہ اس کے علاوہ اور کُچھ کر بھی نہیں سکتے۔ پاکستان میں رمضان کے مہینے سے لیکر عید کے اختتام تک، بچوں اور والدین کی خواہشات اور جیب کا تضاد دُکانداروں اور تفریح مُہیا کرنے والوں کو فائدہ دے جاتا ہے۔
سیر کے لئے بچوں کی سب سے پہلی پسند لاہور کا چڑیا گھر ہے۔ جہاں اُنہیں جانور اور جھولے سب ساتھ ساتھ ملتے ہیں۔ ایک لاکھ اُنچاس ہزار دو سو اکیس شائقین نے عید کی تین چھٹیوں کے دوران لاہور چڑیا گھر کا رُخ کیا۔ بڑوں سے 40 روپے فی ٹکٹ اور بچوں سے 20 روپے فی کس وصولی کے بعد صرف چڑیا گھر کو باون لاکھ اکیس ہزار پانچ سو چالیس روپے آمدن ہوئی۔
ڈائریکٹر جنرل جنگلی حیات، خالد عیاض خان نے وائس آف امریکہ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’’عید کے دنوں میں آنے والے شائقین کی تعداد میں تقریباً ہر سال ہی ریکارڈ اضافہ ہوتا ہے۔۔اور چونکہ چڑیا گھر ایک خود مُختار ادارہ ہے اور جانوروں کی خوراک سے لیکر ملازمین کی تنخواہوں تک تمام تر اخراجات اپنی آمدن سے ہی پورا کرتا ہے، تو عید اور کرسمس جیسے تہوار اس کے لئے کسی نعمت سے کم نہیں‘‘۔
’سفاری زو‘ لاہور شہر سے تقریباً 20 کلومیٹر دور ہے، مسافت زیادہ ہونے کے باوجود یہاں عید کے ایام میں اٹھاون ہزار سات سو چوراسی لوگ تفریح کے لئے آئے اور پندرہ لاکھ بیس ہزار نو سو روپے آمدن ہوئی۔
لاہور میں تقریباً چھ سو چالیس چھوٹے بڑے پارکس ہیں۔ جہاں خوشیوں کے تہوار پر عوام کی بڑی تعداد دکھائی دیتی ہے۔ شہر میں نیا بننے والا بوٹینیکل گارڈن یہاں قائم تتلی گھر اور منفرد جھولوں کے باعث دو سالوں سے شہریوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔
اپنی بیٹیوں کو تفریح کے لئے یہاں لانے والی شیبا کا کہنا ہے کہ دو کروڑ کی آبادی کے شہر میں چند پارکس انتہائی کم ہیں۔ گھر سے باہر بچوں کو اس لئے لیکر آتے ہیں کہ فیملی پکنک ہو جائے۔ لیکن، یہاں تو پاؤں رکھنے کی جگہ نہیں۔ اور نوجوان لڑکے بھی بنا فیملیز کے داخل ہو رہے ہیں۔ پیسے بھی اتنے لگ جاتے ہیں اور جوان بیٹیوں کو اس ماحول میں گھمانے کے کوئی حالات بھی نہیں، اس لئے ہم تو واپس جا رہے ہیں‘‘۔
شیبا کے خاوند ذاکر نے کہا کہ ’’انتظامیہ کو چاہئیے کہ اگر پیسے لے رہے ہیں تو سیکورٹی اور سکون کی صورت میں سہولیات بھی پیدا کریں۔ عید کے پہلے دو دن جن پارکس میں جاتے رہے، وہاں رش اور حبس نے تنگ کئے رکھا اور تیسرے دن سے بارشیں ہوئیں تو سوچا کہ موسم سے لُطف انداوز ہوتے ہیں۔ لیکن، اب جس تفریح گاہ میں بھی جاتے ہیں، وہاں پانی کھڑا ہے تو ایسی صورت میں ہم کیسے مزہ کر سکتے ہیں‘‘۔
صرف باغات ہی نہیں۔ بلکہ، اعداد و شمار کے مطابق، کھانے پینے کے شوقین لاہوریوں نے ریستورانوں کو بھی ان تین دنوں میں دس کروڑ سے زائد کا کاروبار دیا۔