افضل رحمن
سخت سیکیورٹی کے ماحول میں ہفتے کے روز پانچویں لاہور لٹریری فیسٹول کا انعقاد ہوا۔ یہ تین روزہ فیسٹول ہوتا ہے مگر پنجاب حکومت نے اس ادبی میلے کو ایک دن میں سمیٹنے کے لیے کہا کیونکہ لاہور میں 13 فروری کو ہونے والے خودکش دھماکے کے بعد سے حکام نے ہر سطح پر سیکیورٹی ہائی الرٹ کر رکھی ہے۔
اس لٹریری فیسٹول کا انعقاد لاہور کے فلیٹیز ہوٹل میں ہوا جس کے تینوں ہالز اور باہر لگائے جانے والے بڑے خیموں میں دن بھر مختلف نشتوں کا اہتمام ہوا۔ فیسٹول کی 22 نشستیں ہوئیں اور موضوعات ہر قسم کے تھے۔شرکاء کی تعداد درجنوں میں تھی۔
سائرہ نتاشا احمد اس فیسٹول کی کو آرڈی نیٹر ہیں ۔ انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ بیرونی ملکوں سے 22 مندوبین اس میلے میں شریک ہیں اور کافی زیادہ ملکوں کی نمائندگی موجود ہے جن میں انڈونیشیا، نیروبی، برطانیہ، امریکہ شامل ہیں۔
سائرہ احمد کا کہنا تھا کہ لوگوں کی مناسب تعداد فیسٹول میں موجود ہے اور یہ کامیابی سے جاری ہے، اس کے باوجود کہ فیسٹول کو ایک روز تک محدود کر دیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ بنیادی پروگرام تین روزہ تھا مگر اب اسے مختصر کرنے کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ ہمارے بہت سے شرکاء اس میلے میں شامل تو ہیں لیکن ان کے لیے سوال جواب کی نشست کا اہتمام نہیں ہوسکا۔
اندرون ملک سےبھی مندوبین اس میلے میں حصہ لے رہے ہیں۔ کراچی سے آنے والے مندوبین میں حمید ہارون بھی شامل ہیں۔ انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں لٹریری فیسٹول معاشرے کو ایک پلیٹ فارم فراہم کرتا ہے اور اس طرح معاشرہ اپنے خیالات ، اپنے اعتراضات سے ، عوام اور حکومت سے بات کر سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ اس فیسٹول میں یہ مطالبہ لے کر آئے ہیں کہ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی نے کراچی میں مفت علاج کا جو سلسلہ شروع کیا ہے اس کو لاہور میں بھی رائج کیا جائے۔
معروف دانش ور ڈاکٹر عارفہ سیدہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ایسے میلے لازمی ہونے چاہییں کیونکہ جو لوگ، ان کے بقول پاکستان کی خوشیاں لوٹنا چاہتے ہیں ان کو ایسا کرنے کا موقع نہ مل سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ ماحول ضرور سیکیورٹی کا ہے مگر خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
اس فیسٹول میں جو موضوعات زیر بحث آئے، ان میں چیدہ چیدہ عنوانات یہ تھے، نیادور شاکر علی اور لاہور آرٹ کونسل، کوہ نور ہیرے کی کہانی، نیاسویرا، مراکش سے دارجیلنگ تک، زہرہ آپا کے ساتھ ساتھ ، فاشزم کے دور میں آرٹ، Today in fake News, Pakistan at 70 ، اور مرثیہ نگاری۔
اگرچہ گذشتہ لاہور لٹریری میلوں کی نسبت ہفتے کے روز ہونے والے میلے میں عام لوگوں کی حاضری کم تھی، مگر منتظمین خوش تھے کہ انتہائی سیکیورٹی کے ماحول میں بھی وہ یہ سالانہ روایت قائم رکھ سکے۔