پاکستان میں حالیہ مہنگائی کا اثر عیدالفطر کے دوران صارفین کی قوتِ خرید پر بھی پڑا ہے۔ خریدار جہاں قیمتوں میں اضافے کا شکوہ کر رہے ہیں وہیں تاجروں کا کہناہے کہ اس عید پر ان کی سیل میں کمی واقع ہوئی ہے۔
پاکستان میں ہفتے کو عیدالفطر منائی جائے گی۔ روایتی طور پر عید کے موقع پر سال کی سب سے زیادہ خریداری دیکھی جاتی ہے۔ لیکن اس سال صورتِ حال کچھ مختلف ہے۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق پاکستان تاجروں کا کہنا ہے کہ گزشتہ برسوں کے مقابلے میں رواں برس عید کی خریداری میں بڑی کمی دیکھی گئی ہے۔
چین اسٹور ایسوسی ایشن پاکستان (سی اے پی) اور زنانہ کپڑوں کے برینڈ 'رائل ٹیگ' کے سی ای او طارق محبوب کہتے ہیں کہ "خواتین کے کپڑوں کے سوا تمام سیلز میں 20 فی صد کمی ہوئی ہے۔"
خواتین کے کپڑوں کے برینڈ 'کراس اسٹچ' کے مالک اسد شفیع بھی کہتے ہیں کہ پاکستانیوں نے گزشتہ دو برسوں میں روپے کی قدر میں گراوٹ کے باعث اپنی دولت کا 50 فی صد سے زیادہ کھو دیا ہے جب کہ لاگت میں 100 فی صد اضافہ ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ فیشن ریٹیلرز کی توقعات اتنی کم ہیں کہ انہیں مال کی لاگت پر یا کم سے کم قیمت پر سیلز بھی قابل قبول ہے۔
چمڑے کی مصنوعات بنانے والے اسٹور 'حب' کے مینیجنگ ڈائریکٹر اور کیپ کے شریک بانی اسفندیار فرخ کا کہنا ہے کہ مستحکم برینڈز مقامی مارکیٹ میں آمدنی میں بڑی کمی نہیں دیکھ رہے کیوں کہ وہاں اپر مڈل اور اس سے زیادہ آمدنی والے صارفین آتے ہیں۔
البتہ وہ مارکیٹیں اور شاپنگ سینٹرز جو مڈل اور لوئر مڈل کلاس کو ٹارگٹ کرتی ہیں وہاں صارفین کی تعداد میں کمی رپورٹ کی گئی ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان میں روپے کی گرتی قدر، سبسڈیز میں کمی یا خاتمے اور عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف)سے ایک ارب ڈالر سے زائد قرض کے حصول کے لیے شرائط پر عمل درآمد کے حکومتی اقدامات کے باعث مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے۔
رواں برس مارچ میں افراطِ زر 35 فی صد تک پہنچ گئی تھی جب کہ اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں 47 فی صد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔
لاہور کی انارکلی مارکیٹ کی ٹریڈرز ایسوسی ایشن کے صدر اشرف بھٹی نے' رائٹرز' کو بتایا کہ رواں سال عید کی خریداری میں 50 فی صد کمی ہوئی ہے۔
SEE ALSO: وزیرِ خزانہ ہوتا تو آئی ایم ایف پروگرام بحال ہو چکا ہوتا: مفتاح اسماعیللبرٹی مارکیٹ ٹریڈرز ایسوسی ایشن کے صدر سہیل سرفراز مانی کہتے ہیں کہ خریداری میں تقریباً 35 فی صد تک کمی دیکھی گئی ہے۔
خریداری میں کمی پاکستان کی 350 بلین ڈالر کی معیشت کی سست روی میں مزید اضافہ کر سکتی ہے۔ پاکستان کو پہلے ہی معاشی مسائل کا سامنا ہے اور وہ مستحکم پالیسیوں کے لیے جدوجہد میں مصروف ہے۔
پاکستان کو توقع ہے کہ رواں مالی سال میں اس کی معیشت دو فی صد تک ترقی کرے گی۔ تاہم اپریل میں عالمی بینک نےکہا تھا کہ اس کی شرح نمو دو فی صد سے کم ہو کر اعشاریہ چار فی صد رہنے کی توقع ہے۔
اس خبر کے لیے معلومات خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سے لی گئی ہیں۔