پاکستان کے زیرِانتطام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے لیے انتخابات 25 جولائی کو ہو رہے ہیں جس میں پاکستان کی اہم سیاسی و مذہبی جماعتیں حصہ لے رہی ہے۔ جب کہ حالیہ ہفتوں میں جلسے جلوسوں کے ذریعے انتخابی سرگرمیاں بھی زور پکڑ چکی ہیں۔
البتہ مبصرین کہتے ہیں کہ ماضی کے انتخابی نتائج سے یہ تاثر ملتا ہے کہ اس خطے میں عموماً وہی جماعت حکومت بناتی ہے جسے اسلام آباد کی آشیرباد حاصل ہوتی ہے۔
پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے خطے کو پاکستان 'آزاد جموں و کشمیر' قرار دیتا ہے جس کی موجودہ قانون ساز اسمبلی کی آئینی مدت 29 جولائی کو پوری ہو رہی ہے۔
پانچ برس قبل جولائی ہی میں منعقد ہونے والے انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ (ن) نے 31 نشستوں پر کامیابی حاصل کر کے دو تہائی اکثریت بھی حاصل کر لی تھی جب کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم کانفرنس نے تین، تین نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) نے کشمیر میں حکومت بنا کر کشمیر میں اپنی پارٹی کے سربراہ راجہ فاروق حیدر کو وزیرِ اعظم نامزد کیا تھا۔
پاکستان اور گلگت بلتستان کی طرح انتخابات سے پہلے عبوری حکومت کے قیام کا طریقۂ کار پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں نہیں ہے۔ اسی وجہ سے حکومت کی میعاد ختم ہوتے وقت انتخابات اسی حکومت کے تحت ہوتے ہیں جب کہ خطے کی سطح پر قائم الیکشن کمیشن خود مختار ادارے کے طور پر کام کرتا ہے۔
انتخابات اور نشستیں
پاکستانی کشمیر کی آئندہ قانون ساز اسمبلی میں ارکان کی کل تعداد 53 ہو گی جب کہ گزشتہ اسمبلی میں یہ تعداد 49 تھی۔
قانون ساز اسمبلی کی 53 نشستوں میں سے 45 نشستوں پر براہِ راست انتخابات ہوتے ہیں جب کہ خواتین کے لیے پانچ، ٹیکنو کریٹ، علما مشائخ اور بیرونِ ملک کشمیریوں کے لیے ایک ایک نشست مخصوص ہے۔
پینتالیس براہ راست نشستوں میں سے 33 جموں و کشمیر کے علاقے میں ہیں جہاں 28 لاکھ 17 ہزار سے زائد رجسٹرڈ ووٹرز ہیں جن میں 12 لاکھ 97 ہزار خواتین شامل ہیں جب کہ 12 نشستیں پاکستان کے مختلف حصوں کی ہیں، جس کے چار لاکھ 30 ہزار 456 رجسٹرڈ ووٹرز ہیں جن میں ایک لاکھ 70 ہزار 931 خواتین شامل ہیں۔
مہاجرین کی نشستوں پر اعتراضات کیوں؟
جن نشستوں پر براہِ راست انتخابات ہوتے ہیں ان میں 12 نشستیں پاکستان میں مقیم ان مہاجرینِ کے لیے مختص ہیں جو 1947 میں ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے۔ ان میں سے چھ نشستیں جموں اور چھ کشمیر کے مہاجرین کے لیے مختص ہیں۔
البتہ مہاجرین کی ان 12 نشستوں کے حوالے سے عوامی اور سیاسی سطح پر شدید تحفظات پائے جاتے ہیں۔
پاکستانی کشمیر کے سیاسی اُمور کو کور کرنے والے صحافی جلال الدین مغل کا کہنا ہے کہ پاکستان میں مقیم مہاجرین کے ان 12 انتخابی حلقوں کو جموں و کشمیر اسمبلی کے غیر جانبدارانہ اور شفاف انتخابات میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھا جاتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’کشمیر کے الیکشن کمیشن اور انتظامیہ کی پاکستان میں موجود ان حلقوں میں عمل داری نہ ہونے کی وجہ سے ان حلقوں میں پاکستان کی سیاسی جماعتیں اپنا اثر و رُسوخ استعمال کرتی ہیں اور یوں پاکستانی کشمیر میں آزاد اور شفاف الیکشن ہونے کے باوجود پاکستان میں موجود یہ 12 حلقے خطے کی مجموعی انتخابی سیاست پر اثرانداز ہوتے ہیں۔"
خطے میں انتخابی عمل کا آغاز کب ہوا؟
چوبیس اکتوبر 1947 کو پاکستان کے زیرِ انتظام آنے کے بعد کشمیر کے اس حصے میں طویل عرصے تک صدارتی نظامِ حکومت رہا اور 1975 میں پارلیمانی نظام متعارف کروائے جانے کے بعد یہاں انتخابی سیاست کا آغاز ہوا۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں قائم حکومت کا اثر یہاں ہونے والے انتخابات پر واضح نظر آتا ہے اور اس خطے کے انتخابات میں عموماً وہی جماعت کامیابی حاصل کرتی ہے جسے پاکستانی حکومت کی حمایت حاصل ہو۔
نیا الیکشن ایکٹ کیا ہے؟
سن 2018 میں ہونے والی 13 ویں ترمیم کے بعد پاکستانی کشمیر کے انتخابی قوانین میں تبدیلی لائی گئی جب کہ جموں و کشمیر الیکشن ایکٹ 2020 کے نفاذ کے بعد خطے میں پہلے ہی سے رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں کی رجسٹریشن منسوخ کر دی گئی۔
نئی ترامیم کے تحت صرف اُن سیاسی جماعتوں کو الیکشن لڑنے کی اجازت ہے جو کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کی حمایتی ہوں۔
یوں آئین کی رو سے ایسی تنظیموں یا افراد پر انتخابات میں حصہ لینے پر پاپندی ہے جو بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق پر یقین نہیں رکھتے۔
پابندی کا اطلاق انتخابی عمل میں بطور امیدوار حصہ لینے پر بھی ہوتا ہے کیوں کہ کشمیر کے انتخابی قانون کے تحت کاغذات نامزدگی جمع کراتے وقت امیدوار کے لیے ایک ایسے حلف نامے پر دستخط کرنا ضروری ہے جس میں اقرار کیا جاتا ہے کہ وہ نظریہ پاکستان، کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے نظریے اور پاکستان کی سالمیت اور خود مختاری پر یقین رکھتا ہو۔
اسی طرح رکنِ اسمبلی منتخب ہونے کے بعد بھی یہ ضروری ہے کہ پاکستان سے وفاداری کے ساتھ ساتھ کشمیر کے پاکستان سے الحاق کے نصب العین کی وفاداری کا بھی حلف اٹھایا جائے۔
اب نئے الیکشن ایکٹ کے تحت 32 سیاسی و مذہبی جماعتوں کو رجسٹرڈ کیا گیا ہے جن میں پاکستان کی مرکزی اہم جماعتوں کے علاوہ کشمیر کی سطح پر قائم سیاسی جماعتیں بھی شامل ہیں۔
البتہ پاکستان اور بھارت کے زیرِ انتطام کشمیر کے خطوں میں فعال خود مختار کشمیر کی حامی قوم پرست تنظیمیں جیسے جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ(جے کے ایل ایف)، وغیرہ کو رجسٹریشن نہیں دی گئی ہے۔
بھارت کی تہاڑ جیل میں قید حریت پسند کشمیری رہنما یاسین ملک کی سربراہی میں فعال 'جے کے ایل ایف' ریاست جموں و کشمیر سے پاکستان اور بھارت کی فوجوں کے مکمل انخلا اور کشمیر کی خود مختاری چاہتی ہے۔
پاکستانی کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد میں مقیم 'جے کے ایل ایف' کے ایک رہنما نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کی تنظیم خود مختار کشمیر کی حامی ہے جب کہ پاکستان اور بھارت دونوں کے ساتھ الحاق کی مخالف ہے۔
ان کے بقول ’’ایک جانب حکومت ہمیں انتخابات میں حصہ لینے نہیں دیتی تو دوسری جانب ہم بھی اس حلف نامے کی وجہ سے انتخابات کا بائیکاٹ کرتے رہتے ہیں۔"
خطے میں فعال سیاسی جماعتیں
جموں و کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں پاکستان تحریکِ انصاف، پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی، جماعتِ اسلامی، مسلم کانفرنس اور جموں و کشمیر پیپلزپارٹی، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے علاوہ متعدد جماعتیں حصہ لے رہی ہے۔
کشمیر پر متعدد کتابوں کے مصنف و محقق پروفیسر ایم اے خان اپنی ایک کتاب ’کشمیر‘ میں لکھتے ہیں کہ ریاست کی سطح پر سب سے پرانی اور قابل ذکر سیاسی جماعت مسلم کانفرنس ہے جو 1931 میں وجود میں آئی اور شیخ عبداللہ ان کے پہلے صدر تھے۔ مگر 1939 میں یہ جماعت دو حصوں میں تقسیم ہو گئی اور سردار غلام عباس مسلم کانفرنس جب کہ شیخ عبداللہ نیشنل کانفرنس کے صدر بنے۔
جموں و کشمیر میں ابتدائی دور میں مسلم کانفرنس کو انتخابات میں برتری رہی جب کہ مسلم لیگ (ن) جموں و کشمیر کی سطح پر مسلم کانفرنس کی ہی حمایت کرتی تھی مگر بعد میں مسلم لیگ (ن) نے خطے کی سطح پر اپنی تنظیم کی بنیاد رکھی۔
پروفیسر ایم اے خان کے مطابق کے ایچ خورشید کی لبریشن لیگ بھی ریاست کی سطح پر اہم جماعت سمجھتی جاتی تھی جس کی بنیاد 1961 میں رکھی گئی تھی مگر یہ جماعت کے ایچ خورشید کے انتقال کے بعد کمزور ہو گئی۔
پاکستان کی سیاسی جماعتوں کا جموں و کشمیر کی سیاست میں داخلہ دراصل پیپلزپارٹی کے بانی اور سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی جماعت کی خطے میں شاخ کو متعارف کرنے سے کیا جس پر جموں و کشمیر کے سیاسی حلقے تنقید بھی کرتے رہتے ہیں۔
جماعت اسلامی بھی جموں و کشمیر میں اپنا وجود رکھتی ہے مگر پارٹی کا دعویٰ ہے کہ وہ پاکستان کی جماعتِ اسلامی سے ہٹ کر اپنا نظم اور آئین رکھتی ہے۔