دنیا کے بلند ترین پہاڑی سلسلوں کے مرکز گلگت بلتستان میں سرد موسم کے باوجود آج کل سیاسی گہماگہمی اور گرما گرمی اپنے عروج پر ہے جہاں تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین زور و شور سے مقامی انتخابات کی مہم چلا رہے ہیں۔
سیاحوں کے لیے پر کشش گلگت بلتستان میں انتخابات پہلے بھی ہوتے رہے ہیں مگر اس بار سیاسی ماحول کچھ زیادہ ہی گرم ہے۔
حکومت اور حزبِ اختلاف کی مرکزی سیاسی قیادت نہ صرف انتخابی مہم چلا رہی ہے، بلکہ ہفتوں سے گلگت بلتستان میں پڑاؤ ڈالے ہوئے ہے۔
گلگت بلتستان پاکستان کے شمال میں واقع ہے، جہاں ہمالیہ، قراقرم اور ہندو کش کے پہاڑی سلسلے ملتے ہیں۔
گلگت بلتستان کی قانون ساز اسمبلی کے انتخابات اتوار 15 نومبر کو ہو رہے ہیں جس میں سات لاکھ سے زائد رائے دہندگان اپنے ووٹ کا استعمال کریں گے۔
ماضی میں گلگت بلتستان میں وہی جماعت انتخابات میں کامیاب ہوتی رہی ہے جس کی اسلام آباد یعنی وفاق میں حکومت ہوتی تھی۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے تو یہ بھی کہہ دیا ہے کہ گلگت بلتستان میں حکومت بنانے والی جماعت ہی وفاق میں حکومت بنائے گی۔
حزبِ اختلاف کی جماعتوں کا اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) حکومت مخالف تحریک کا آغاز بھی کیے ہوئے ہے جس کا مقصد حکومت کا خاتمہ اور نئے انتخابات کا انعقاد ہے۔
تجزیہ کار زاہد حسین کہتے ہیں کہ حزبِ اختلاف کی حکومت مخالف تحریک کے باعث ملکی سیاسی صورتِ حال نے گلگت بلتستان کے انتخابات کی اہمیت اور دلچسپی بڑھا دی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں زاہد حسین کا کہنا تھا کہ اگر حزبِ اختلاف یہاں کے انتخابات میں کامیابی حاصل کر لیتی ہے۔ تو یہ حکومت مخالف تحریک کو مزید تقویت دے گی۔
خیال رہے کہ پی ڈی ایم نے حکومت مخالف تحریک کا اپنا اگلا جلسہ 22 نومبر کو پشاور میں رکھا ہے۔
گلگت بلتستان میں صحافت کرنے والے جمیل نگری کہتے ہیں کہ گلگت بلتستان کے انتخابات کو تحریکِ انصاف کی حکومت کے وسط مدتی انتخاب کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔
ان کے بقول مقامی انتخابات کی بازگشت اس وجہ سے بھی ہے۔ کیوں کہ اسے حکومت کی کارکردگی اور عوامی مقبولیت کو جاننے کے پیمانے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
اس بار گلگت بلتستان کے انتخابات کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہو گئی ہے کہ یہ الیکشن اس علاقے کو صوبہ بنانے کے نعرے پر ہو رہے ہیں۔
وزیرِ اعظم عمران خان نے گزشتہ ہفتے اپنے دورۂ گلگت کے دوران گلگت بلتستان کو عبوری آئینی صوبے کا درجہ دینے کا اعلان کیا تھا۔ تو بلاول بھٹو زرداری کہتے ہیں کہ گلگت بلتستان کو صوبے کا درجہ دینا ان کے پارٹی منشور کا حصہ ہے۔
پاکستان کی پارلیمانی سیاسی جماعتوں کے قائدین نے عسکری قیادت کے ساتھ ستمبر میں ہونے والے ایک بند کمرہ اجلاس میں گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے پر اتفاق کیا تھا۔ تاہم سیاسی قیادت نے اس فیصلے کو انتخابات تک مؤخر رکھنے کا کہا تھا۔
تجزیہ کار زاہد حسین کہتے ہیں کہ گلگت بلتستان کو صوبے کا درجہ ملنے سے اس کا پاکستان کی سیاست سے گہرا تعلق پیدا ہو جائے گا اور اسی وجہ سے حالیہ انتخابات میں سیاسی گہماگہمی زیادہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ جو جماعت بھی گلگت بلتستان میں حکومت بنائے گی پاکستان کے ریاستی حکومتی نظام میں اس جماعت کی اہمیت بڑھ جائے گی۔
وہ سمجھتے ہیں کہ گلگت بلتستان کے انتخابات میں پاکستان کی سیاسی صورتِ حال تو اثر انداز ہو سکتی ہے لیکن بیرونی معاملات کا زیادہ اثر نہیں ہے۔
گلگت بلتستان کے صحافی جمیل نگری کہتے ہیں کہ اب جب کہ سیاسی و عسکری قیادت کی سطح پر یہ فیصلہ ہو چکا ہے کہ گلگت بلتستان کو عبوری صوبے کا درجہ دے کر پاکستان کا آئینی حصہ بنانا ہے، تو ملک کے سیاسی نظام میں ان انتخابات کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ ہر سیاسی جماعت چاہتی ہے کہ وہ یہاں اپنی سیاسی بنیاد بہتر بنائے تاکہ آنے والے وقت میں جب گلگت بلتستان کو پاکستان کی پارلیمنٹ میں نمائندگی ملے تو ان جماعتوں کی عددی قوت بہتر ہو سکے۔
بھارت کا اعتراض
پاکستان کے گلگت بلتستان کو صوبے کا عبوری درجہ دینے کے اعلان اور انتخابات کرانے پر بھارت نے اعتراض کیا ہے۔ بھارت کی وزارتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان نے اس علاقے پر غیر قانونی قبضہ کیا ہوا ہے۔
برطانیہ سے آزادی سے قبل گلگت بلتستان جموں و کشمیر کی ریاست کا ایک حصہ رہا ہے۔ لیکن تقسیم ہند کے وقت یہاں کے لوگوں نے مقامی فوج سے لڑ کر پاکستان کے ساتھ الحاق کیا تھا۔
گلگت بلتستان نے چوں کہ کشمیر سے آزادی حاصل کی تھی اس لیے پاکستان نے اسے مسئلہ کشمیر کے ساتھ منسلک رکھا۔ البتہ کشمیر پر رائے شماری نہ ہونے کے باعث یہ علاقہ آج تک متنازع ہے۔
گلگت بلتستان کے عوام کا دیرینہ مطالبہ رہا ہے کہ انہیں پاکستان کا باقاعدہ آئینی حصہ بنایا جائے جس پر پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کی قیادت معترض رہی ہے اور ان کا خیال ہے کہ اس عمل سے مسئلہ کشمیر متاثر ہونے کا اندیشہ ہے۔