تحقیق داں کہتے ہیں کہ الکٹرونک مصنوعات کا بڑھتا ہوا استعمال بچوں میں دیر سے بولنے اور بات کرنے میں دقت محسوس کرنے کا ذمہ دار ہے
بچے کے لیے ماں کی گود پہلی درس گاہ ہوتی ہے۔ یہیں سے وہ ماں کی مسکراہٹ کے ساتھ مسکرانا اور اس کے ہنسنے پر قلقاریاں مارنا سیکھتا ہے۔ یہ فطری تعلق اسے ماں کی ذات کا اس قدر عادی بنا دیتا ہےکہ وہ ماں کے نزدیک ہونے پر خوش اور دور جانے پر غمگین دکھائی دیتا ہے۔
بچے کا فطری مطالبہ تو آج بھی وہی ہے، مگر معاشی مسائل میں الجھےہوئے والدین کی ترجیحات پہلے کی نسبت بدل چکی ہیں۔
اُن کے پاس اپنےبچےسے باتیں کرنےاور اس کے معصوم سوالوں کا جواب دینے کے لیے وقت نہیں بچتا۔
گذشتہ برس برطانوی ادارہ برائے تعلیم کی جانب سے اسکول کے بچوں میں زبان سیکھنے کی صلاحیت اوربات چیت کرنے کی اہلیت جاننے کے حوالے سے ایک تحقیق کی گئی۔
تحقیق دانوں کےمطابق، گذشتہ چھ برسوں کے دوران بات کرنے میں دقت محسوس کرنے والے بچوں کی تعداد میں 70فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ایسے بچوں کو اسکول میں ایک ماہر زبان دان کی ضرورت پڑتی ہے۔
تحقیق دانوں نےبچوں میں دیر سے بولنے اور بات کرنےمیں دقت محسوس کرنے کا الزام گھروں میں الیکڑونک مصنوعات کےبڑھتے ہوئے استعمال کو دیا ہے۔
اسکرین بیسڈ الیکٹرونک مصنوعات کو ہر بچے والے گھر میں ایک سستے 'بے بی سٹر' کی حیثیت حاصل ہے، جہاں بچوں کو گھنٹوں ٹی وی، کمپیوٹر، ویڈیو گیم کے سامنے رکھا جاتا ہے۔ مگر اُن کا حد سے بڑھتا ہوا استعمال بچوں کے معصوم ذہنوں پر اثر انداز ہو رہا ہے، خصوصاً کمسن بچے جن کے سیکھنے کے لیے ابتدائی دو سال بہت اہم ہوتے ہیں۔
تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ والدین بچے کی دو برس کی عمر ہوجانے تک اس کے بولنے یا باتیں کرنے کا انتطار کرتے ہیں اور اس کے بعد ہی وہ اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے کسی ماہر زباں دان سے مشورہ کرتے ہیں۔
بیٹر کمیونیکیشن ریسرچ پروگرام کے نام سے کی جانے والی تحقیق میں بتایا گیا ہےکہ کلاس میں بات چیت کرنے میں دقت محسوس کرنے والے بچے جن کی عمریں پانچ سے16 سال کے درمیان ہے، ان کی تعداد ایک لاکھ پینتیس ہزار سات سو ہے۔
یعنی، سال 2005 ءسے سال 2011ء کے درمیانی عرصے میں ان کی تعداد2.2 فیصد بڑھی ہے۔ اس تحقیق میں صرف ایسے بچوں کو شامل کیا گیا ہے جنھیں اسکول میں باقاعدہ زبان کی مشقیں کرائی جاتی ہیں۔
لندن کے ایک پرائمری اسکول'ریورلی' کی ہیڈ ٹیچر نے وی او اے کو بتایا کہ، 'پری اسکول شروع کرنے والےزیادہ تر بچوں کو بات کرنا نہیں آتی۔ بلکہ، انھیں ایک جملہ بولنے کے لیےالفاظ جوڑنے میں مشکل پیش آتی ہے۔ لہذا، ایسے بچوں کو اسکول میں زبان کی مشقیں کرائی جاتی ہیں، جبکہ ان بچوں میں سیکھنے کا عمل بھی عام بچوں کی نسبت سست ہوتا ہے۔'
تجزیہ کاروں کے نزدیک ابتدا میں بچےکےگھرکا ماحول اسے زبان سیکھنے میں مدد فراہم کرتا ہے،جس میں بچے کے ساتھ ماں کا برتاؤ، اہل خانہ کا بچے کے ساتھ لگاؤ اور گھر کا سماجی ماحول شامل ہے۔
برطانیہ کی ایک فلاحی تنظیم ' آئی کین' نے اس تحقیق پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ بچوں میں دیر سے بات شروع کرنے کے مسئلے کی کئی اور وجوہات بھی ہیں جنھیں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ مثلا بچےکی مخصوص ذہنی کیفیت، عادت اور اس کےاردگرد کا ماحول بھی بچے کی بولنے کی صلاحیت پر اثر انداز ہوتا ہے۔
میری ایک قریبی دوست سلمیٰ جو ملازمت کرنے والی ماں ہیں اسی مسئلے سے دوچار ہے۔ اس کی بیٹی علیزہ دو برس کی ہوچکی ہے مگر اب تک ٹھیک سے بات نہیں کر پاتی۔ اس بات پر وہ اکثر اپنی فکرمندی کا اظہار کرتی ہے، لیکن وہ اس مسئلے پر ڈاکٹر سے رہنمائی نہیں چاہتی، بلکہ اس کا خیال ہے کہ جب بچی اسکول جانا شروع کرے گی تو اپنی کلاس کے بچوں کے ساتھ خود ہی باتیں کرنا سیکھ جائے گی۔
سلمیٰ کی طرح کام پر جانے والے والدین جن کے پاس بچوں کے ساتھ پارک جانے یا سماجی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے لیےوقت نہیں ہوتا وہ خود کو سماجی حلقے کی گہماگہمی سے دور کرلیتے ہیں۔
ان تھکے ماندے والدین کے پاس بچوں کو دینے کے لیے وقت کم ہوتا ہے۔
ایسی صورتحال میں، بچوں کو ٹی وی پر ان کا پسندیدہ کارٹون شو کئی کئی گھنٹے دکھایا جاتا ہے۔
اسی طرح کچھ والدین اپنے سات آٹھ سال کے بچوں کے ہاتھوں میں ویڈیو گیم اور اسمارٹ فون تک تھما دیتے ہیں۔ لہذا، تنہائی کے زیراثر پلنے والے بچے بڑےہونے کےبعد بھی بات چیت کرنے میں گھبراہٹ محسوس کرتے ہیں۔
اسی طرح، بچوں والے گھروں میں مل کر دستر خوان پر کھانا کھانے، سردیوں کی راتوں میں ایک ہی کمرے میں جمع ہو کر لوڈو یا کیرم کی بازیاں کھیلنے جیسی خاندانی روایات بھی ختم ہوتی جارہی ہیں۔
بچے کا فطری مطالبہ تو آج بھی وہی ہے، مگر معاشی مسائل میں الجھےہوئے والدین کی ترجیحات پہلے کی نسبت بدل چکی ہیں۔
اُن کے پاس اپنےبچےسے باتیں کرنےاور اس کے معصوم سوالوں کا جواب دینے کے لیے وقت نہیں بچتا۔
گذشتہ برس برطانوی ادارہ برائے تعلیم کی جانب سے اسکول کے بچوں میں زبان سیکھنے کی صلاحیت اوربات چیت کرنے کی اہلیت جاننے کے حوالے سے ایک تحقیق کی گئی۔
تحقیق دانوں کےمطابق، گذشتہ چھ برسوں کے دوران بات کرنے میں دقت محسوس کرنے والے بچوں کی تعداد میں 70فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ایسے بچوں کو اسکول میں ایک ماہر زبان دان کی ضرورت پڑتی ہے۔
تحقیق دانوں نےبچوں میں دیر سے بولنے اور بات کرنےمیں دقت محسوس کرنے کا الزام گھروں میں الیکڑونک مصنوعات کےبڑھتے ہوئے استعمال کو دیا ہے۔
اسکرین بیسڈ الیکٹرونک مصنوعات کو ہر بچے والے گھر میں ایک سستے 'بے بی سٹر' کی حیثیت حاصل ہے، جہاں بچوں کو گھنٹوں ٹی وی، کمپیوٹر، ویڈیو گیم کے سامنے رکھا جاتا ہے۔ مگر اُن کا حد سے بڑھتا ہوا استعمال بچوں کے معصوم ذہنوں پر اثر انداز ہو رہا ہے، خصوصاً کمسن بچے جن کے سیکھنے کے لیے ابتدائی دو سال بہت اہم ہوتے ہیں۔
تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ والدین بچے کی دو برس کی عمر ہوجانے تک اس کے بولنے یا باتیں کرنے کا انتطار کرتے ہیں اور اس کے بعد ہی وہ اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے کسی ماہر زباں دان سے مشورہ کرتے ہیں۔
بیٹر کمیونیکیشن ریسرچ پروگرام کے نام سے کی جانے والی تحقیق میں بتایا گیا ہےکہ کلاس میں بات چیت کرنے میں دقت محسوس کرنے والے بچے جن کی عمریں پانچ سے16 سال کے درمیان ہے، ان کی تعداد ایک لاکھ پینتیس ہزار سات سو ہے۔
یعنی، سال 2005 ءسے سال 2011ء کے درمیانی عرصے میں ان کی تعداد2.2 فیصد بڑھی ہے۔ اس تحقیق میں صرف ایسے بچوں کو شامل کیا گیا ہے جنھیں اسکول میں باقاعدہ زبان کی مشقیں کرائی جاتی ہیں۔
لندن کے ایک پرائمری اسکول'ریورلی' کی ہیڈ ٹیچر نے وی او اے کو بتایا کہ، 'پری اسکول شروع کرنے والےزیادہ تر بچوں کو بات کرنا نہیں آتی۔ بلکہ، انھیں ایک جملہ بولنے کے لیےالفاظ جوڑنے میں مشکل پیش آتی ہے۔ لہذا، ایسے بچوں کو اسکول میں زبان کی مشقیں کرائی جاتی ہیں، جبکہ ان بچوں میں سیکھنے کا عمل بھی عام بچوں کی نسبت سست ہوتا ہے۔'
تجزیہ کاروں کے نزدیک ابتدا میں بچےکےگھرکا ماحول اسے زبان سیکھنے میں مدد فراہم کرتا ہے،جس میں بچے کے ساتھ ماں کا برتاؤ، اہل خانہ کا بچے کے ساتھ لگاؤ اور گھر کا سماجی ماحول شامل ہے۔
برطانیہ کی ایک فلاحی تنظیم ' آئی کین' نے اس تحقیق پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ بچوں میں دیر سے بات شروع کرنے کے مسئلے کی کئی اور وجوہات بھی ہیں جنھیں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ مثلا بچےکی مخصوص ذہنی کیفیت، عادت اور اس کےاردگرد کا ماحول بھی بچے کی بولنے کی صلاحیت پر اثر انداز ہوتا ہے۔
میری ایک قریبی دوست سلمیٰ جو ملازمت کرنے والی ماں ہیں اسی مسئلے سے دوچار ہے۔ اس کی بیٹی علیزہ دو برس کی ہوچکی ہے مگر اب تک ٹھیک سے بات نہیں کر پاتی۔ اس بات پر وہ اکثر اپنی فکرمندی کا اظہار کرتی ہے، لیکن وہ اس مسئلے پر ڈاکٹر سے رہنمائی نہیں چاہتی، بلکہ اس کا خیال ہے کہ جب بچی اسکول جانا شروع کرے گی تو اپنی کلاس کے بچوں کے ساتھ خود ہی باتیں کرنا سیکھ جائے گی۔
سلمیٰ کی طرح کام پر جانے والے والدین جن کے پاس بچوں کے ساتھ پارک جانے یا سماجی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے لیےوقت نہیں ہوتا وہ خود کو سماجی حلقے کی گہماگہمی سے دور کرلیتے ہیں۔
ان تھکے ماندے والدین کے پاس بچوں کو دینے کے لیے وقت کم ہوتا ہے۔
ایسی صورتحال میں، بچوں کو ٹی وی پر ان کا پسندیدہ کارٹون شو کئی کئی گھنٹے دکھایا جاتا ہے۔
اسی طرح کچھ والدین اپنے سات آٹھ سال کے بچوں کے ہاتھوں میں ویڈیو گیم اور اسمارٹ فون تک تھما دیتے ہیں۔ لہذا، تنہائی کے زیراثر پلنے والے بچے بڑےہونے کےبعد بھی بات چیت کرنے میں گھبراہٹ محسوس کرتے ہیں۔
اسی طرح، بچوں والے گھروں میں مل کر دستر خوان پر کھانا کھانے، سردیوں کی راتوں میں ایک ہی کمرے میں جمع ہو کر لوڈو یا کیرم کی بازیاں کھیلنے جیسی خاندانی روایات بھی ختم ہوتی جارہی ہیں۔