فارمرزایسوسی ایشن کی ڈائریکٹر، ڈاکٹر رابعہ سلطان کا کہنا ہےکہ پاکستان کے پاس توانائی کےحصول کے وافر ذرائع موجود ہیں جِن سےاب تک بدقسمتی سےخاطرخواہ استفادہ نہیں کیا گیا، اور بجلی کی کمی ایک عرصہٴ دراز سے ہماری ناقص منصوبہ بندی کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔
ڈاکٹر رابعہ کے الفاظ میں: ’بات یہ ہے کہ ہم ’ وِنڈ پاور‘ سےساڑھے تین لاکھ میگاواٹ بجلی پیدا کرسکتے ہیں۔ صرف گھارو اور کیٹی بندر کے علاقے سے تقریباً 60000میگاواٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔‘
اتوار کو ’وائس آف امریکہ ‘سے گفتگو میں اُنھوں نے کہا کہ پانی کےعلاوہ شمسی توانائی اور پن بجلی کے کافی سستے ذرائع موجود ہیں جِن سے ہمیں فائدہ اٹھانا چاہیئے، جب کہ پاکستان میں کوئلے کےبیش بہا ذخائر موجود ہیں۔
ڈاکٹر رابعہ سے یہ انٹرویو اسلام آباد میں انرجی پر نیشنل کانفرنس کے انعقاد کے حوالے سے کیا گیا جِس کا افتتاح کرتے ہوئے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ حکومت کی ترجیحات میں توانائی کےبحران سے نمٹنے کو خاص اہمیت دی جارہی ہے، کیونکہ معیشت کا دارومدار اِسی پر ہے۔
توانائی کی طلب اور رسد کے بارے میں سوال پر ڈاکٹر رابعہ نے بتایا کہ ایسے میں جب پاکستان توانائی کے بد ترین بحران سے دوچار ہے، طلب اور رسد کا فرق بڑھتا چلا جارہا ہے۔
اِس سوال پر کہ جب تک وافر مقدار میں بجلی فراہم ہو تب تک کیا تدابیر اختیار کی جائیں، اُنھوں نے کہا کہ یہ معاملہ بہت حد تک
’ لوڈ منیجمنٹ‘ کا ہے۔ اُن کے بقول، ہمیں لگژری اور ضروریات میں تفریق کرنی ہوگی۔ ’یہ جو شہروں میں خواہ خواہ جگ مگ بتیاں جل رہی ہوتی ہیں ، بڑی عمارتوں اور سرکاری دفاتر میں ، پہلا قدم یہ ہوگا کہ اُن کو کنٹرول میں لایا جائے۔ پھر شادیوں میں جو قم قمے جلائے جاتے ہیں اُن کو بند کیا جائے۔‘
ہائڈرو انرجی کے بارے میں تجزیہ کار نے بتایا کہ یہ سستا ترین توانائی پیدا کرنے کا ذریعہ ہے، یعنی تربیلا اور منگلا سے جو بجلی پیدا ہو تی ہے وہ تقریباً ایک یا ڈیڑھ روپیہ فی یونٹ ہے جب کہ تھرمل اور آئی پی پییز کی بجلی 13سے14روپیہ فی یونٹ پر پڑتی ہے جس کی پاکستانی صنعت متحمل نہیں ہوسکتی۔
ایک اور سوال کے جواب میں ڈاکٹر رابعہ نے کہا کہ بجلی کی بچت ’مائکرو لیول‘ یعنی گھر کی سطح سے شروع ہونی چاہیئے۔ اِس کے علاوہ بجلی چوری کے معاملے کو حل کرنے کے لیے حکومت کو سنجیدگی سے بجلی چوروں کے خلاف کارروائی کرنی چاہیئے، بغیر اِس تفریق کے کہ کون کتنا بااثر ہے۔
تفصیل کے لیےآڈیورپورٹ سنیئے: