امریکی دارلحکومت واشنگٹن میں ان دنوں 19 واں اینوائرمینٹل فلم فیسٹیول ہو رہا ہے، جس کا مقصد ماحول کو درپیش مسائل کے بارے میں شعور بیدار کرناہے۔ دو ہفتوں پر مشتمل اس فلمی میلے میں دنیا کے 40ممالک کی 150 فیچر اور دستاویزی فلمیں پیش کی جائیں گی۔
دستاویزی فلم ہمنگ برڈ سے لے کر سمندروں اور جنگلات کو درپیش خطرات پر بننے والی فلموں تک، اس فلمی میلے میں ہر قسم کی فلمیں پیش کی جا رہی ہیں۔ لیکن اس سال خاص توجہ حاصل رہے گی توانائی کے حصول اور بچت کے حوالے سے فلموں کی ایک سیریز کو، جس میں دنیا بھر سے توانائی کی بچت اور ماحول کو درپیش خطرات کوموضوع بنایا گیا ہے ۔
سویٹزرلینڈ کے فلم ڈائریکٹر مارک ولفنبرگرز کی فلم آئل راکس ، سٹی اباو دی سی ، کو اس فیسٹول کا ایک خصوصی ایوارڈ دیا گیا ہے۔ اس فلم میں انھوں نے سمندر میں تیل نکالنے کے پہلے اور سب سے بڑے پلیٹ فارم کی تصور کشی کی ہے۔
فلم فیسٹول کے ڈائریکٹر فلوسٹون کا کہنا ہے کہ فلم میں دکھایا جانے والا شہر سوویت یونین کے زمانے میں 1949ءمیں تعمیر کیا گیا تھا۔ جو اس فلم کی کہانی کا موضوع ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ یہ فلم کیسپین سی میں تعمیر ہونے والے اس شہر کے بارے میں ہے جو آج بھی آباد ہے۔ 9 منزلہ عمارتیں اور کئی ایکڑ رقبے پر پھیلے تیل کے کنویں، جنھیں نہایت مہارت سے فلم بند کیا گیا۔ بہت سے لوگوں کے انٹرویوز کیےگئے اور تاریخی تصاویر کو بھی استعمال کیا گیا۔
خام تیل کی صنعت کو کئی اور فلموں میں بھی موضوع بنایا گیا ہے۔ دی پائپ نامی اس فلم میں آئرلینڈ کے ساحلی علاقے میں تیل کی پائپ لائن بچھائے جانے کے بعد وہاں لوگوں کی زندگی میں آنے والی تبدیلی کو دکھایا گیا ہے۔
دستاویزی اور فیچر فلموں کے علاوہ کارٹونی فلمیں بھی اس میلے کا حصہ ہیں۔ اگرچہ یہاں دنیا کے 40 ممالک کی فلمیں دکھائی جا رہی ہیں لیکن میلے کے ڈائریکٹر اور شریک بانی فلو سٹون کہتے ہیں کہ وہ چاہتے ہیں کہ افریقی ممالک کی فلمیں زیادہ سے زیادہ پیش کی جائیں۔
افریقہ کے بارے میں پیش کی گئی ایک فلم وہائٹ لائن ہے جو شائقین کی توجہ حاصل کر رہی ہے۔ اس میں سفید جنگلی شیروں کی نسل کو درپیش خطرات کے بارے میں بات کی گئی ہے۔ فلم میں ایک سفید شیر کی کہانی پیش کی گئی ہے ، جسے افریقن کہانیوں میں پیامبر کی حیثیت دی جاتی ہے، لیکن حقیقی زندگی اسے افریقی جنگلات میں ان شکاریوں سے بچنا پڑتا ہے جو اس کی بیش قیمت کھال کو اس کی زندگی سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔
سویڈن کے ڈائریکٹر سٹیفن جارل کی طرف سے پیش کی گئی ایک دلچسب فلم سب مشن میں ان ایک لاکھ کیمیکلز میں سے کچھ کا خاکہ پیش کیا گیا ہے جن سے ہمارا ہر روز واسطہ پڑتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم ایک پیچیدہ صورتحال سے نبر آزما ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے ہم ان کیمیکلز کا استعمال حد سے زیادہ کر رہے ہیں، جو اس وقت ایک سو ملین ٹن کے مقابلے میں آج 5 سوملین ٹن تک جا پہنچا ہے۔
فلم کے ڈائریکٹر اور مصنف، سٹیفن جارل کا کہنا ہے کہ یہ فلم ان کے لیے ذاتی طور پر بہت اہم تھی۔ ان کاکہنا ہے کہ اس فلم کے لیے تحقیق کرتے ہوئے انھیں ان تمام کیمکلز کے بارے میں پتہ چلا ،جو انسانی صحت کے لیے مضر ہیں تو وہ خود پریشان ہو گئے۔ او ر انھوں نے اپنے ٹیسٹ کروائے۔ وی او اے کو فون پر دیئے ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ اس فلم کو پوری دنیا میں پذیرائی ملی ہے اور سویڈن میں اس فلم کی نمائش کے بعد سویڈن کی حکومت نے بچوں میں کیمیکلز کے استعمال کو کم کرنے کے لیے ایک چار سالہ پروگرام بھی ترتیب دیا ہے۔
واشنگٹن ڈی سی سے پیش کی جانے والی ایک ڈاکیومنٹری فلم اے کمیونٹی آف گارڈنرز میں یہاں گھروں میں باغات لگانے والے لوگوں کو مو ضوع بنایا گیا ہے ۔فلم کی پروڈیوسر سینٹیا کیبیب کا کہنا ہے کہ گھروں میں باغات لگانے کا سلسلہ نہ صرف ایک صحت مند مشغلہ ہے بلکہ لوگوں کے لیے ایک تفریح بھی ہے۔
پچھلے سال تقریبا 26 ہزار شائقین نے اس فلم فیسٹول میں شرکت کی تھی۔ اس میلے میں نہ صرف فلمیں پیش کی جاتی ہیں بلکہ مشہور سائنسدانوں اور فلم میکرز کے مختلف لیکچرز بھی پیش کیے جاتے ہیں۔ میلے کے منتظمین کو امید ہے کہ بڑھتے ہوئے ماحولیاتی خطرات کے پیش نظر انھیں امید ہے کہ اس سال زیادہ لوگ اس میلے میں شرکت کریں گے۔