یورپی پارلیمنٹ نے منگل کے روز 2035 تک کاربن خارج کرنے والے پٹرول اور ڈیزل سے چلنے والی کاروں کی فروخت پر پابندی کی حتمی منظوری دے دی ہے۔ یہ اقدام صدی کے نصف تک ایسی کاروں کو یورپ کی سڑکوں سے ہمیشہ کے لیے دور کر دینے کی غرض سے کیا گیا ہے۔
یورپی یونین کے رکن ممالک اس قانون سازی کی پہلے ہی منظوری دے چکے ہیں اور پارلیمنٹ میں سب سے بڑے قدامت پسند گروپ کے ارکانِ پارلیمنٹ کی مخالفت کے باوجود وزراء کی سطح کی آئندہ میٹنگ میں اسے قانون کی شکل دے دی جائے گی۔
اس بل کے حامیوں کی دلیل ہے کہ اس سے یورپی کارسازوں کو ایک معقول عرصہ مل جائے گا جس کے دوران وہ کاروں کو صفر اخراج (زیرو امیشن) والی الیکٹرک گاڑیوں میں تبدیل کر سکیں گے اور چین اور امریکہ کے مقابلے کے لیے سرمایہ کاری کو تحریک دے سکیں گے اور یہ یورپی یونین کے اس منصوبے میں بھی مدد دے گا جس کا مقصد اس کی معیشت کو 2050 تک گرین ہاؤس گیسوں کے صفر اخراج کا حامل بنانا ہے۔
SEE ALSO: یورپ کا تیل سے چلنے والی گاڑیوں کی فروخت 2035 تک ختم کرنے کا فیصلہیورپی یونین کے نائب صدر فرانس ٹمر مینز اراکینِ پارلیمنٹ کو خبردار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں آپ کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ گزشتہ برس اور اس سال کے دوران چین، الیکٹرک کاروں کے 80 ماڈل بین الاقوامی مارکیٹ میں لے کر آرہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ اچھی کاریں ہیں اور یہ سستی بھی ہوں گی تو ہمیں ان کا مقابلہ کرنا ہے۔ ہم اس اہم صنعت کو غیر ملکیوں کے حوالے نہیں کر سکتے۔
لیکن اس کے مخالفین کا کہنا ہے کہ نہ تو یورپی صنعت اور نہ ہی بہت سے نجی کار مالکان، تیل سے چلنے والے انجنوں کی پیداوار میں اس ڈرامائی کمی کے لیے تیار ہیں اور یہ کہ اس اقدام سے ہزاروں لوگوں کی ملازمتیں بھی خطرے میں پڑ جائیں گی۔
SEE ALSO: یورپی یونین: 2020 میں 10 لاکھ ہائی برڈ اور الیکڑک کاروں کی ریکارڈ فروختایم ای پی جینز گیزیکے جو دائیں بازو کی یورپین پیپلز پارٹی (ای پی پی) کے رکن ہیں، کہتے ہیں کہ ہماری تجویز یہ ہے کہ یہ فیصلہ مارکیٹ کو کرنے دیا جائے کہ ہمارے اہداف کے لیے کیا ٹیکنالوجی بہتر ہے۔
گیزیکے یہ بھی کہتے ہیں کہ توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے بحران نے گرین اور سوشلسٹ ارکانِ پارلیمنٹ کا یہ دعویٰ کہ بجلی سے چلنے والی کاریں سستی ہیں، بالکل غلط ثابت کر دیا ہے۔
ان کے مطابق جرمنی میں چھ لاکھ لوگ آئی سی ای پیداوار سے منسلک ہیں جن کی ملازمتیں خطرے میں پڑ جائیں گی چنانچہ یورپی کمیشن کو یہ پابندی ٹرکوں اور بسوں تک بڑھانے کے منصوبوں پر نظرِ ثانی کرنا ہو گی۔
ای پی پی گروپ نے خبردار کیا ہے کہ کاروں کی بیٹریاں امریکہ جیسے یورپ سے مسابقت رکھنے والے ملکوں میں تیار کی جاتی ہیں لیکن ٹمرمینز نے کہا کہ سرمایہ کاری میں یورپی یونین کی مدد کی بدولت یورپی پیداوار میں اضافہ ہوگا۔
یہ کرۂ ارض کی فتح ہوگی؟
کریمہ ڈیلی ٹرانسپورٹ کمیٹی کے صدر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ آج کی رائے شماری ماحولیاتی تبدیلی کے لیے تاریخی حیثیت رکھتی ہے۔ 2050 تک ہماری سڑکوں پر پٹرول اور ڈیزل سے چلنے والی کاریں تقریباً ختم ہو جائیں گی اور یہ ہمارے کرہ ارض اور ہماری آبادی کے لیے ایک فتح ہے۔
SEE ALSO: شمسی توانائی سے چلنے والی کار مارکیٹ میں آنے کو تیارفی الوقت یورپی یونین میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کا 15 فی صد کاروں کی وجہ سے ہے جب کہ ایک چوتھائی ٹرانسپورٹیشن کی وجہ سے ۔
گرین ہونے پر امریکی مراعات
جرمنی میں گاڑیوں کی صنعت سے وابستہ لاکھوں کارکنوں اور قدامت پسند اراکینِ پارلیمنٹ نئے ضابطوں کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہیں اور انہیں خدشہ ہے کہ کاریں بنانے کے پلانٹس میں نئے آلات کی تنصیب اور کارکنوں کی دوبارہ تربیت سے ان کے کاروبار پر دباؤ آئے گا جب کہ دنیا میں ان سے مسابقت رکھنے والوں کو اتنے سخت اہداف کا سامنا نہیں ہے۔
لیکن یورپ میں کاروں کی صنعت کی جانب سے اس قانون کے خلاف کوئی جدوجہد نہیں کی گئی ہے بلکہ بہت سی کمپنیاں الیکٹرک کارسازی کی دوڑ میں شامل ہونے کے لیے پہلے ہی کوششیں شروع کر چکی ہیں۔
SEE ALSO: الیکٹرک کار ٹیسلا ماڈل تھری کی پروڈکشن 1000 روزانہ تک پہنچ گئیایسے میں جب یہ قانون یورپی یونین کی پارلیمنٹ میں زیرِ بحث رہا ہے امریکہ نے اپنے ہاں اس صنعت کو گرین توانائی کی جانب منتقل کرنے والوں کے لیے وسیع مراعات کے منصوبے کا اعلان کیا ہے اور یورپ میں یہ خدشات پیدا ہو گئے ہیں کہ یورپ کے حریف امریکہ میں بجلی سے چلنے والی کاروں اور بیٹری بنانے کی صنعت میں سرمایہ کاری اور ملازمتوں میں اضافہ ہو جائے گا۔
فی الوقت یورپی یونین میں 12 فیصد کاریں بجلی سے چل رہی ہیں اور لوگوں کا رجحان بھی الیکٹرک کاروں کی جانب ہوتا جا رہاہے۔
اسی دوران چین کا ارادہ ہے کہ 2035 تک کاروں کی کم از کم نصف تعداد، الیکٹرک یا چارج کی جا سکنے والی ہائی بریڈ یا ہائیڈروجن سے چلنے والی ہو۔
یورپی یونین کے نئے قانون کو اسٹراسبرگ کی اسمبلی میں 279 کے مقابلے میں 340 ووٹوں سے منظور کیا گیا ہے جب کہ 21 ارکان غیر حاضر رہے۔
(اس خبر میں مواد اے ایف پی سے لیا گیا)