یوکرین جنگ کی یورپ اب قیمت چکا رہا ہے، روس کل چکائے گا، تجزیہ کار

فائل فوٹو

پہلے کووڈ نائنٹین اور اس کے بعد یوکرین کی جنگ، یکے بعد دیگر دو آفتوں نے یورپ کی معیشیت اور روز مرّہ زندگی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ یورپ بھر میں پریشانی کے آثار بڑھ رہے ہیں۔ اٹلی میں فوڈ بینک پہلے کی نسبت زیادہ لوگوں کو کھانا کھلا رہے ہیں۔ جرمن حکام ایئر کنڈیشنگ کو ترک کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی وہ قدرتی گیس کو حصہ رسد بنانے اور کوئلے کے پلانٹس کو دوبارہ شروع کرنے کے منصوبے تیار کر رہے ہیں۔

دودھ فروخت کرنےوالے پریشان ہیں کہ وہ دودھ کو محفوظ کیسے کریں گے۔ یورو ڈالر کے مقابلے میں 20 سال کی کم ترین سطح پر آ گیا ہے، اور کساد بازاری کی پیش گوئیاں بڑھ رہی ہیں۔

دباؤ کے یہ حالات اس بات کی علامت ہیں کہ کس طرح اس تنازعہ کے گہرے بادل یورپ پر چھا رہے ہیں۔ کریملن نے قدرتی گیس کو آہستہ آہستہ بند کر دیا ہے ، جس نے یورپ میں توانائی کے بحران کو ہوا دی۔ ابھی یورپی معیشت کووڈ ۔ 19 سے دوبارہ بحال بھی نہیں ہو پائی تھی کہ کساد بازاری میں ڈوبنے کے امکانات بڑھنے لگے۔

جنگ کی وجہ سے توانائی کی زیادہ قیمت روس کو فائدہ پہنچا رہی ہے، جو تیل اور قدرتی گیس کا ایک بڑا برآمد کنندہ ہے۔ پابندیوں کے ساتھ رہنے کے برسوں کے تجربے نے روس کے مرکزی بینک اقتصادی تنہائی کے باوجود روبل اور مستحکم اور افراط زر کو روکے رکھا ہے۔

تاہم، اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ طویل مدتی بنیاد پر روس کو مکمل تباہی سے گریز کرتے ہوئے، جنگ کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ اس کی سرمایہ کاری پر زد پڑ رہی ہے اور یہاں کے کم آمدنی والے لوگ معاشی جمود کا سامنا کر رہے ہیں۔

یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ

یورپ کا سب سے بڑا چیلنج فوری نوعیت کا ہے۔ ایک طرف 8.6 فیصد کی مہنگائی کا مقابلہ دوسری طرف توانائی کی کمی کو ختم کیے بغیر موسم سرما کا گزارنا۔ براعظم یورپ روسی قدرتی گیس پر انحصار کرتا ہے، اور توانائی کی ہوشربا قیمتیں ،فیکٹریوں، خوراک کے اخراجات اور ایندھن کے ٹینکوں تک پہنچ رہی ہیں۔

غیر یقینی صورتحال کا اسٹیل اور زراعت جیسی توانائی پر مبنی صنعتوں کے علاوہ عام زندگی پر بھی پڑے گا،بحران بڑھنے کی صورت میں گھروں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے قدرتی گیس کو راشن کی صورت یعنی حصہ رسد کے طور پر فراہمی کا امکان بھی بڑھتا جا رہا ہے۔

ڈیری فارموں کے حالات خاصے نازک ہیں، ایک ڈیری فارم جہاں کی پچاس ہزار گائیں ایک دن میں ایک ملین لیٹر دودھ پیدا کرتی ہیں۔ دودھ کو اگر محفوظ نہ کیا جاسکا تو "پھر کسانوں کو اپنا دودھ ضائع کرنا پڑے گا۔"

ایک گھنٹے میں، ڈیری ایک گھر کے لیے ایک سال کی بجلی کے مساوی استعمال کرتی ہے تاکہ دودھ کے 20 ہزار پیلیٹوں کو ٹھنڈا رکھا جا سکے۔کھانے کی میز پر بھی معاشی بد حالی نظر آنے لگی ہے۔ صارفین کے گروپوں کا اندازہ ہے کہ ایک عام اطالوی خاندان اس سال اپنا پیٹ پالنے کے لیے 681 یورو زیادہ خرچ کر رہا ہے۔

فوڈ بینک آف لومبارڈی کے صدر ڈاریو بوگیو مارزیٹ نے کہا کہ "ہم صورتحال اور ایسے خاندانوں کی تعداد میں مسلسل اضافے کے بارے میں فکر مند ہیں جن کی ہم مدد کر رہے ہیں،" ہم درجنوں خیراتی ادارے چلاتے ہیں جو سوپ کچن چلاتے ہیں اور انہیں کھانا فراہم کرتے ہیں۔ اس سال ان کے ماہانہ اخراجات میں پانچ ہزار یورو اضافہ ہوا ہے۔

فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون کا کہنا ہے کہ حکومت کا مقصد رات کے وقت پبلک لائٹس بند کرکے اور دیگر اقدامات اٹھا کر توانائی کا تحفظ کرنا ہے۔ اسی طرح جرمن حکام لوگوں اور کاروباری اداروں سے توانائی کی بچت کے لیے آمادہ کر رہے ہیں اور عوامی عمارتوں میں کم گرمی اور کم ایئر کنڈیشننگ کا حکم دے رہے ہیں۔

SEE ALSO: بڑے ملکوں کی لڑائی میں چھوٹے ملکوں کو کیا قیمت چکانا پڑتی ہے؟

یہ وقت روس کی طرف سے ایک درجن یورپی ممالک میں قدرتی گیس کی کٹوتی یا کمی کے بعد ہوا ہے۔ ایک بڑی گیس پائپ لائن بھی گزشتہ ہفتے طے شدہ دیکھ بھال کے لیے بند ہو گئی تھی، اور خدشہ ہے کہ روس اور جرمنی کے درمیان نورڈ سٹریم 1 سے گزرنے والی پائپ لائن دوبارہ شروع نہیں ہو گی۔

جرمنی کے روسی گیس کے سب سے بڑے درآمد کنندہ یونیپر نے گیس کی بلند قیمتوں کی وجہ سے حکومت سے مدد طلب کی ہے، تاکہ عام آدمی پر زیادہ بوجھ نہ پڑے۔

ایک بینک کے سربراہ اورماہر اقتصادیات کارسٹن برزسکی نے سال کے آخر میں کساد بازاری کی پیشین گوئی کی ہے، کیونکہ بلند قیمتوں نے قوت خرید کو ختم کر دیا ہے۔ یورپ کی طویل مدتی اقتصادی ترقی کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ آیا حکومتیں قابل تجدید توانائی پر مبنی معیشت میں منتقلی کے لیے درکار بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری سے کس طرح نمٹتی ہیں۔

دوسری طرف فی الحال روس نے وسیع حکومتی مداخلت کے ذریعے اپنے روبل کی شرح تبادلہ، اسٹاک مارکیٹ اور افراط زر کو مستحکم رکھا ہوا ہے۔ روس اپنے تیل کی فروخت کے لیے ایشیا میں زیادہ خریدار تلاش کر رہا ہے۔

روس نے2014 میں یوکرین کے کریمیا کے علاقے پر قبضہ کیا تھا، اس کے بعد پابندیوں کی زد میں آنے کے باوجود، کریملن نے قرض کی شرح کو کم رکھ کر اور کمپنیوں کو روس کے اندر حصوں اور خوراک کے ذرائع کی طرف راغب کر کے مضبوط معیشت قائم رکھی۔

روس سے یورپ آنے والی گیس سپلائی لائنوں کا ایک نقشہ۔

اگرچہ IKEA جیسے غیر ملکی ملکیت والے کاروبار بند ہو چکے ہیں اور روس نے ایک صدی سے زائد عرصے میں پہلی بار اپنے غیر ملکی قرضے پر ڈیفالٹ کیا ہے۔تاہم ابھی سفید پوش طبقہ آنے والے معاشی بحران سے بے خبر نظر آتا ہے۔

کم خوشحال صوبوں میں، ماسکو سے 440 کلومیٹر (273 میل) دور نزنی نوگوروڈ میں رہنے والی صوفیا سوورووا نے خاندانی بجٹ پر دباؤ محسوس کیا ہے۔

اس نے ایک سپر مارکیٹ میں خریداری کرتے ہوئے کہا، "ہم عملی طور پر اب ٹیک وے کھانے کا آرڈر نہیں دیتے ہیں۔" "جب آپ کے چھوٹے بچے ہوتے ہیں تو یہ بہت آسان ہوتا تھا۔ ہم اکثر کیفے میں جاتے ہیں۔ ہمیں تفریح کو کم کرنا پڑا، جیسے کنسرٹ اور تھیٹر وغیرہ۔

ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ روبل کی شرح مبادلہ - جنگ سے پہلے ڈالر کے مقابلے میں مضبوط اور گرتی ہوئی افراط زر ایک گمراہ کن تصویر پیش کرتی ہے۔

رقوم کو ملک سے باہر جانے سے روکنے اور برآمد کنندگان کو تیل اور گیس سے اپنی زیادہ تر غیر ملکی آمدنی کو روبل میں تبدیل کرنے پر مجبور کرنے والے قوانین نے شرح مبادلہ میں دھاندلی کی ہے۔

افراط زر کی شرح جزوی طور پر نظر نہیں آرہی ہے،جرمن انسٹی ٹیوٹ برائے بین الاقوامی اور سلامتی کے امور کے روسی معیشت کے ماہر جینس کلوگ نے ایک حالیہ تجزیے میں لکھا۔ "اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں مغربی اشیا کے غائب ہونے کا کوئی حساب نہیں ہے، اور کم افراط زر شاید گھٹتی ہوئی مانگ کو ظاہر کرتا ہے۔"

ماہر سیاسیات الیا ماتویف کے مطابق، 2020 میں تقریباً 2.8 ملین روسیوں کو غیر ملکی یا مخلوط ملکیتی فرموں نے ملازمت دی۔ اگر سپلائی کرنے والوں کو مدنظر رکھا جائے تو، 50 لاکھ ملازمتیں، یا افرادی قوت کا 12 فیصد غیر ملکی سرمایہ کاری پر منحصر ہے۔

غیر ملکی کمپنیاں روسی مالکان کو تلاش کر سکتی ہیں، اور تحفظ پسندی اور سرکاری ملازمتوں کی بھرمار بڑے پیمانے پر بے روزگاری کو روکے گی۔

لیکن گلوک کا کہنا ہے کہ اس طرح معیشت بہت کم نتیجہ خیز ہوگی۔ ان کے الفاظ میں

" کیونکہ اوسط حقیقی آمدنی میں نمایاں کمی اپنا اثر دکھائے گی۔"

(خبر کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے)