'دی لیجنڈ آف مولا جٹ' کی 100 کروڑ کی کمائی، پاکستانی سنیما نے یہ سفر کیسے طے کیا؟

پاکستان کی حال ہی میں ریلیز ہونے والی پنجابی فلم 'دی لیجنڈ آف مولا جٹ' کی نمائش دنیا بھر میں جاری ہے۔ فلم نے صرف 10 دن میں 100 کروڑ روپے کا بزنس کرکے تمام پاکستانی فلموں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

اس سے قبل پاکستان کی تاریخ کی کامیاب ترین فلم 2018 میں ریلیز ہونے والی 'جوانی پھر نہیں آنی-ٹو' تھی۔ اس فلم نے نمائش کے اختتام تک دنیا بھر سے 70 کروڑ روپے کمائے تھے۔

تاہم 'دی لیجنڈ آف مولا جٹ' نے 10 دن میں نہ صرف 'جوانی پھر نہیں آنی ٹو' کا ریکارڈ توڑا بلکہ یہ فلم گزشتہ 84 برسوں کے دوران بننے والی تمام پاکستانی فلموں کے بزنس کے لحاظ سے سب سے آگے نکل گئی ہے۔

حالاں کہ پاکستان کی تین بڑی سنیما فرانچائز نیوپلکس، سنے پیکس اور سنے اسٹار نے مالی معاملات طے نہ ہونے کی وجہ سے 'دی لیجنڈ آف مولا جٹ' کو نمائش کے لیے پیش نہیں کیا تھا۔البتہ سنیما مالکان کے اس فیصلے سے فلم کو زیادہ تقصان نہیں ہوا۔

اب تک کی تفصیلات کے مطابق 'دی لیجنڈ آف مولا جٹ' نے پاکستان سے زیادہ بیرونِ ملک سے بزنس کیا۔ فلم نے پاکستان سے اب تک 33 کروڑ روپے سے زائد اور بیرون ملک 80 کروڑ روپے کمائے ہیں۔

سن 1948 میں پاکستان کی پہلی فلم 'تیری یاد' کی ریلیز سے لے کر اب تک جتنی بھی فلمیں ریلیز ہوئیں ہیں کوئی بھی فلم 100 کروڑ روپے کلب کا حصہ نہیں بن سکی تھی۔

پاکستان کی پہلی سلور جوبلی فلم 'پھیرے' تھی جو آزادی کے دو برس بعد ریلیز ہوئی۔ اس کے بعد 1954 میں ریلیز ہونے والی اردو فلم 'سسی' گولڈن جوبلی فلم بنی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سنیما میں فلم کی کامیابی کا اندازہ 'ہفتوں' کے لحاظ سے ہوتا تھا۔

سنیما گھروں میں جو فلم 25 ہفتے چلتی تھی اسے 'سلور جوبلی' کہا جاتا تھا جب کہ 50 ہفتے چلنے والی فلم گولڈن اور 75 ہفتے چلنے والی فلم کو پلاٹینم جوبلی کہا جاتا تھا۔ پاکستان کو ڈائمند جوبلی یعنی 100 ہفتوں تک چلنے والی فلم کے لیے دو دہائی انتظار کرنا پڑا تھا۔

پاکستان کی پہلی پلاٹینم جوبلی فلم وحید مراد اور زیبا کی 'ارمان' تھی جو 1966 میں ریلیز ہوئی۔ اس فلم نے اپنے مقبول گانے اور اداکاری کی وجہ سے 75 ہفتے تک سنیما کی زینت بنی رہی۔ پاکستان کی پہلی ڈائمنڈ جوبلی فلم ہدایت کار ریاض شاہد اور اداکارہ نیلو کی 'زرقا' تھی۔

آئیےان چند پاکستان فلموں پر نظر ڈالتے ہیں جن کی ریلیز پاکستان کی فلم انڈسٹری کے لیے اہم ثابت ہوئی۔

تیری یاد: قیامِ پاکستان کے بعد پہلی فلم

فلمی دنیا کی خبروں پر نظر رکھنے والے صحافی مشتاق گزدر کی کتاب 'پاکستانی سنیما 1974 ۔1997' کے مطابق پاکستان کی پہلی فلم'تیری یاد' دو ستمبر 1948 کو ریلیز ہوئی جب کہ بعض جگہ اس کی ریلیز کی تاریخ سات اگست بتائی جاتی ہے۔

کتاب کے مطابق 'دیوان پکچرز' کے بینر تلے ریلیز ہونے والی فلم کے ہیرو بھارتی اداکار دلیپ کمار کے چھوٹے بھائی ناصر خان تھے جب کہ اس فلم میں اداکارہ آشا پوسلے کو بطور ہیروئن کاسٹ کیا گیا تھا۔

Your browser doesn’t support HTML5

پاکستان کے 75 سال: فلم انڈسٹری پیچھے کیوں رہ گئی؟

اس فلم کی ہدایت بھارت سے ہجرت کرکے پاکستان آنے والے داؤد چاند نے دی تھی۔ 'تیری یاد' کے ذریعے اداکار آصف رضا میر کے والد رضا میر نے بطور کیمرا مین اور شاعر قتیل شفائی نے بطور نغمہ نگار فلمی دنیا میں قدم رکھا تھا۔

اس فلم کی کہانی بھارت میں اس وقت بننے والی فلموں کی ہی طرح تھی لیکن اس کے باوجود یہ زیادہ بزنس نہ کرسکی کیوں کہ پاکستان کے بانی محمد علی جناح کی طبیعت ناساز تھی اور فلم کی ریلیز کے دس دن بعد ہی ان کا انتقال ہوگیا تھا جس کے بعد پوراملک سوگ میں چلا گیا تھا۔

پاکستان کی پہلی کلر فلم 'سنگم'

فائل فوٹو

عموماً محققین ہدایت کار شریف نیر کی فلم 'نائلہ' کو پاکستان کی پہلی کلر فلم سمجھتے ہیں جب کہ مشتاق گزدر کی کتاب کے مطابق یہ اعزاز 1964 میں ریلیز ہونے والی فلم 'سنگم' کو حاصل ہے۔

مشرقی پاکستان میں بننے والی اس فلم کی ہدایت معروف ایڈ میکر ظہیر ریحان نے دی جب کہ وہ اس فلم کے پروڈیوسر اور مصنف بھی تھے۔

فلم کی کاسٹ میں زیادہ تر مشرقی پاکستان کے ہی اداکار شامل تھے جس میں روزی، سمیتا دیوی اور ہارون کے نام قابلِ ذکر ہیں۔ 'سنگم' کی موسیقی خان عطاالرحمان نے ترتیب دی جب کہ اس کے گانےفردوسی بیگم اور بشیر احمد نے گائے تھے۔

مغربی پاکستان میں 47 ہفتوں تک کامیابی سے چلنے والی فلم نے دیگر فلم سازوں کا حوصلہ بڑھایا جنہوں نے آہستہ آہستہ بلیک اینڈ وائٹ سے رنگین فلموں کی طرف قدم بڑھایا۔

آئینہ: پاکستان کی پہلی فلم جس کی نمائش 400 ہفتوں تک جاری رہی

فائل فوٹو

پاکستانی ہدایت کار نذر الاسلام نے کئی کامیاب فلمیں بنائیں لیکن 1977 میں ریلیزہونے والی 'آئینہ' نے خوب کامیابیاں سمیٹیں۔

موسیقار روبن گھوش کے ترتیب دیے ہوئے فلم کے گانے آج بھی اتنے ہی مقبول ہیں جتنے وہ 45 برس قبل تھے۔ فلم میں ان کی اہلیہ شبنم اور ندیم نے ہیرو ہیروئن کا کردار ادا کیا تھا جب کہ اس کے مکالمے بشیر نیاز نے لکھے تھے۔

فلم 'آئینہ' کو بالی وڈ میں 'پیار جھکتا نہیں' اور 'راجہ ہندوستانی' کے نام سے متعدد بار کاپی کیا جا چکا ہے۔

SEE ALSO: بھارتی فلموں سے ٹکر لینے کی کوشش میں اپنی کہانیاں نہیں بتارہے: عثمان پیرزادہ

صحافی یٰسین گوریجہ کی کتاب 'پاکستان کی 100 شاہکارفلمیں' کے مطابق 'آئینہ' پاکستان کی تاریخ کی پہلی فلم تھی جس کی مسلسل 400 ہفتوں تک نمائش جاری رہی۔

یہ فلم کراچی کے علاقے صدر میں واقع بمبینو سنیما میں مارچ 1977 کو پہلی بار نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی۔ فروری 1978 میں اس فلم کو اسی سنیما کے پڑوس میں نسبتاً چھوٹے 'اسکالا سنیما' میں منتقل کیا گیا جہاں اس کی نمائش جنوری 1982 تک جاری رہی۔

مولا جٹ: وہ فلم جس نے پنجابی سنیما کو نئی زندگی بخشی

فائل فوٹو

ناصر ادیب کے لکھے گئے ڈائیلاگ 'مولے نوں مولا نہ مارے، تے مولا نئیں مردا'نے ہدایت کار یونس ملک کی فلم کو تو چار چاند لگائے ساتھ ہی اس نے پنجابی فلموں کو دوبارہ زندہ بھی کیا۔

اس فلم کے بعد سلطان راہی پنجابی فلموں کے 'مولا' اور مصطفیٰ قریشی 'نوری' بن کر سامنے آئے۔یٰسین گوریجہ اپنی کتاب 'پاکستان کی 100 شاہکارفلمیں' میں لکھتے ہیں کہ لاہور میں اس فلم کی نمائش 250 ہفتوں تک جاری رہی۔

یٰسین گوریجہ کے مطابق 'مولا جٹ' میں فلم ساز سرور بھٹی نے چند غیر سینسر شدہ سین شامل کرلیے تھے جس کے خلاف سینسر بورڈ نے کارروائی کی تو انہوں نے لاہور ہائی کورٹ سے حکم امتناعی حاصل کرلیا۔

جب تک یہ حکم امتناعی جاری رہا اس وقت تک فلم کی نمائش جاری رہی۔ حکم کے منسوخ ہونے پر ہی اسے زبردستی اتار ا گیا۔ 43 برس بعد اس فلم کو بلال لاشاری نے 'دی لیجنڈ آف مولا جٹ' کے نام سے مختلف انداز میں پیش کیا۔

یہ دل آپ کا ہوا: پاکستان کی پہلی ماڈرن فلم

فائل فوٹو

ہدایت کار سید نور نے فلم ' جیوا' اور 'سرگم' کے ذریعے 90 کی دہائی میں اردو فلموں کا ٹرینڈ دوبارہ شروع کرنے کی کوشش کی۔ لیکن 2002 میں جب تک جاوید شیخ کی فلم 'یہ دل آپ کا ہوا' سنیما میں نہیں آئی تھی پاکستان میں فلمیں اسی پرانے انداز میں بنتی تھیں۔

'یہ دل آپ کا ہوا' میں معمر رانا، سلیم شیخ اور ثنا کے ساتھ ساتھ جاوید شیخ اور بابر علی نے بھی اداکاری کی۔ فلم کی ہدایات جاوید شیخ نے دی تھیں جب کہ اس کی زیادہ تر شوٹنگ یورپ میں ہوئی۔

اس فلم میں گاڑیوں کی ریس اور بُل ایرینا میں فائٹ کا سین بھی فلمایا گیا تھا جو اس وقت خوب مقبول ہوا تھا۔

فلم کی موسیقی امجد بوبی نے ترتیب دی اور تمام گانے بھارتی گلوکاروں نے گائے جس میں سونو نگم، کمار سانو، کویتا کرشنامورتی قابلِ ذکر ہیں۔ پاکستانی گلوکار رحیم شاہ کا مقبول گیت 'پہلے تو کبھی کبھی غم تھا' کو بھی اس فلم میں شامل کیا گیا تھا۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے جاوید شیخ کا کہنا تھا کہ 'یہ دل آپ کا ہوا' کے پروڈیوسر اکبر خان سے ان کی ملاقات لاہور میں اچانک ہوئی تھی، وہ اسپین سے پاکستان آئے ہوئے تھے اور وہ بالی وڈ کی طرز پر ایک پاکستانی فلم بنانا چاہ رہے تھے۔

جاوید شیخ کےمطابق اس وقت پاکستان میں کسی بھی فلم کا بجٹ پانچ کروڑ روپے نہیں ہوتا تھا اور جب انہوں نے پانچ کروڑ روپے کی لاگت سے اکبر خان کے ساتھ مہنگی پاکستانی فلم بنانے کی ٹھانی تو ہر کوئی حیران تھا۔

ان کے بقول جب فلم بینوں نے ڈیجیٹل ساؤنڈ، ویڈیو اور بالی وڈ کی طرز کے گانے اور فائٹ دیکھی تو انہیں بہت پسند آئی۔ اور یوں پاکستان میں ماڈرن طرز کی فلمیں بننے کا سلسلہ شروع ہوا۔

خدا کے لیے: 47 برس بعد بھارت میں ریلیز ہونے والی پہلی پاکستانی فلم

فائل فوٹو

قیامِ پاکستان کے بعد بھی کئی برسوں تک پاکستان میں بھارتی فلموں کی نمائش ہوتی تھی جب کہ کئی پاکستانی فلموں کو بھارت میں بھی ریلیز کیا گیا۔ تاہم 60 کی دہائی کے آغاز میں فلموں کی نمائش کو بریک لگا۔ پاکستان نے 2007 میں بھارتی فلم 'مغلِ اعظم' کو سنیما گھروں میں لگا کر اس سلسلے کو توڑا۔لیکن بھارت نے اس کے لیے انتظار کیا۔

ہدایت کار شعیب منصور کی فلم 'خدا کے لیے' ایک ایسی ہی فلم ابھر کر سامنے آئی جسے پاکستان میں تو شائقین نے خوب سراہا بلکہ اسے بھارت میں بھی نمائش کے لیے پیش کیا گیا۔

اس فلم میں اداکار شان ، ایوب کھوسہ، رشید ناز، نعیم طاہر، حمید شیخ اور سیمی راحیل نے اداکاری کے جوہر دکھائے تھے جب کہ ایمان علی اور فواد خان نے اس کے ذریعے فلمی دنیا میں قدم رکھا۔

فلم کی کہانی دو بھائیوں کے گرد گھومتی ہے جن میں سے ایک کو نائن الیون کے بعد امریکی حکام مسلمان ہونے کی وجہ سے جیل میں ڈال دیتے ہیں تو دوسرا مذہبی ہونے کے بعد موسیقی چھوڑ کر قبائلی علاقوں کا رخ کرتا ہے۔

SEE ALSO: بالی وڈ کے مشہور گانے جو پاکستانی گانوں کی نقل ہیں

فلم کے گانے بے حد مقبول ہوئے جنہیں شجاع حیدر اوراحمد جہاںزیب سمیت کئی گلوکاروں نے گایا۔ گانوں کی ترتیب روحیل حیدر نے دی تھی۔

بھارتی اداکار نصیر الدین شاہ نے اس فلم میں ایک مختصر کردار ادا کیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ان کی موجودگی سے فلم کو بھارت میں نمائش کی اجازت ملی۔

'خدا کے لیے' کے بعد شعیب منصور کی فلم 'بول' بھی بھارتی سنیما گھروں میں ریلیز ہوئی تھی۔

نامعلوم افراد: وہ فلم جو شائقین کو دوبارہ سنیما کھینچ لائی

فائل فوٹو

حالیہ دنوں میں پاکستان میں بہت کم ایسی فلمیں بنی ہیں جن کی کہانی حالات سے متاثر ہوکر لکھی گئی ہو۔ ہدایت کار نبیل قریشی اور فلم ساز فضا علی میرزا کی فلم 'نامعلوم افراد' ایک ایسی ہی کوشش تھی جس نے نہ صرف شائقین کو ایسی فلم دی جس سے وہ ریلیٹ کرسکیں بلکہ اس نے سنیما انڈسٹری کو دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کا موقع دیا۔

سن 2014 میں ریلیز ہونے والی فلم میں فہد مصطفیٰ ، جاوید شیخ، محسن عباس حیدر اور عروہ حسین نے اداکاری کی تھی۔ اس فلم کی کہانی اُس زمانے میں کراچی میں ہونے والی ہڑتالوں کے گرد گھومتی تھی جس کی آڑ میں حالات سے تنگ آئے ہوئے بینک لوٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔

'نا معلوم افراد' کے ہدایت کار نبیل قریشی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جب وہ یہ فلم بنارہے تھے تو انہیں اندازہ تھا کہ یہ لوگوں کو پسند آئے گی۔ لیکن انہیں اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ یہ کراچی کے ایک سنیما میں چھ ماہ تک نمائش کے لیے لگی رہے گی۔

SEE ALSO: کبھی مشہور ڈائیلاگ تو کبھی کرداروں پر مبنی، پاکستانی فلموں کے دلچسپ نام

ان کے بقول فلم کا آئیڈیا انہیں اور ان کی پروڈیوسر کو کراچی کے حالات پر بات کرتے ہوئے اچانک آیا تھا۔

اس فلم سے قبل بلال لاشاری کی 'وار' اور ہمایوں سعید کی 'میں ہوں شاہد آفریدی' نے بھی فلم بینوں کو سنیما لانے میں مدد کی تھی۔ لیکن یہ سلسلہ 'نامعلوم افراد' کے بعد سے زیادہ بڑھا جو ابھی تک جاری ہے۔

پنجاب نہیں جاؤں گی:50 کروڑ روپے کمانے والی پہلی پاکستانی فلم

فائل فوٹو

ویسے تو ہمایوں سعید کی بطور اداکار پہلی فلم 1999 میں ثمینہ پیرزادہ کی 'انتہا' تھی۔ لیکن 2013 میں جب انہوں نے 'میں ہوں شاہد آفریدی' پروڈیوس کی تو وہ بطور اداکار بھی کافی ہٹ ہوئے۔

بعدازاں انہوں نے جو فلم بھی بنائی وہ کامیاب ہوئی اور اس وقت پاکستان کی ٹاپ 10 کامیاب فلموں میں سے چار فلموں کے پروڈیوسر ہمایوں سعید ہیں۔

سن 2015 میں ریلیز ہونے والی ان کی فلم 'جوانی پھر نہیں آنی' نے دنیا بھر میں تو اچھا بزنس کیا لیکن وہ 50 کروڑ روپے کمانے والی فلموں میں شامل نہ ہوسکی۔

پھر جب ندیم بیگ کی ہدایت کاری میں بننے والی ان کی فلم 'پنجاب نہیں جاؤں گی' سنیما میں ریلیزہوئی تو اسے پاکستان سمیت دنیابھر میں خوب پسند کیا گیا۔ پنجابی کلچر کے گرد گھومنے والی فلم نے پچاس کروڑ روپے کا بزنس کر کے سب کو پیچھے چھوڑ دیا تھا۔

اس فلم نے مجموعی طور پر 51 کروڑ 65 لاکھ روپے کا بزنس کیا جسے ہمایوں سعید ہی کی 'جوانی پھر نہیں آنی ٹو' نے ایک سال بعد توڑا اور 70 کروڑ روپے کا بزنس کرکے سب سے کامیاب فلم بن گئی۔

رواں برس ہمایوں سعید اور مہوش حیات کی فلم 'لندن نہیں جاؤں گا' نے بھی 50 کروڑ سے زائد کا بزنس کیا تھا۔