سپريم کورٹ ميں پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاويد باجوہ کی مدت ملازمت ميں توسيع کا معاملہ زير بحث ہے۔ يوں تو اس سے قبل بھی فوجی سربراہان کو توسیع ملتی رہی ہے۔ ليکن، ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ پاکستان ميں کسی آرمی چيف کی توسيع کا معاملہ عدالت میں زیرِ بحث ہے۔
خیال رہے کہ چيف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعيد کھوسہ نے منگل کو رياض حنيف راہی ايڈوکيٹ کی درخواست پر آرمی چيف کی توسيع کا نوٹی فکيشن معطل کر ديا تھا۔ فوج سے ريٹائرڈ جنرلز کے مطابق، سپريم کورٹ کے اس اقدام سے قوانين کو نئے سرے سے بنانے اور درست کرنے ميں مدد ملے گے۔
وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے سابق ڈی جی آئی ايس آئی، لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) جاويد اشرف قاضی نے کہا کہ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ آرمی چیف کی توسیع کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت ہے۔
جاوید اشرف قاضی کے مطابق، قوانین ميں آرمی چیف کی توسیع سے متعلق موجود مختلف خامياں سامنے آ رہی ہيں۔
جاوید اشرف قاضی کا کہنا تھا کہ قانون میں آرمی چیف کی تقرری کا تو ذکر ہے لیکن توسیع سے متعلق قانون خاموش ہے۔
جاويد اشرف قاضی کے مطابق، وقتی طور پر ايک بھونچال کی کيفيت تو ضرور پيدا ہو گئی ہے۔ تاہم، اس کے ذريعے سمری بنانے میں حکومت نے جو غلطیاں کی ہیں وہ درست ہو جائیں گی۔
جاوید اشرف قاضی کہتے ہیں کہ آئین کی معطلی کے دوران آرمی چیف ازخود توسیع دیتے رہے ہیں۔ سابق صدر پرویز مشرف نے بطور صدر خود کو توسیع دی۔
جاويد اشرف قاضی نے مزيد بتايا کہ ماضی کے فوجی حکمرانوں کا رعب اور دبدبہ زیادہ ہوتا تھا۔ لہذٰا، کوئی عدالت سے رجوع نہیں کرتا تھا۔ لیکن، اب حالات بدل گئے ہیں۔
جاوید اشرف قاضی کہتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ لفٹیننٹ جنرلز جو آرمی چيف بننے کی دوڑ میں شامل ہوتے ہیں ان کی اميديں دم توڑ ديتی ہيں اور وہ قبل از وقت ريٹائرمنٹ لے ليتے ہيں۔
SEE ALSO: ریٹائرڈ جرنیل کو بھی آرمی چیف بنایا جا سکتا ہے: اٹارنی جنرلسابق سیکریٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) آصف ياسين ملک کہتے ہیں کہ قوانین پر عملدرآمد کرنا بیوروکریسی کا کام ہوتا ہے۔ لیکن، ان کی غلطی کی وجہ سے پورے ملک میں ہنگامہ کھڑا ہو گیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے لیفٹیننٹ جنرل آصف ياسين ملک نے کہا کہ پاکستان جیسے ملک میں سازشی عناصر بھی سرگرم رہتے ہیں۔ ان کے بقول، توسیع کے معاملے پر سیکریٹری قانون کچھ لکھ رہا ہے۔ صدر کے پاس جو سمری گئی اس میں نئی تعیناتی کا ذکر ہے جب کہ ایوانِ صدر سے توسیع کا نوٹی فکیشن جاری ہوتا ہے۔
سابق سيکريٹری دفاع کے مطابق، وزيراعظم کو اس معاملے کا سخت نوٹس لينا چاہیے اور متعلقہ لوگوں کو سزا دينی چاہیے، تاکہ دوبارہ کوئی ايسی غلطی نہ کرے۔
SEE ALSO: جنرل باجوہ اور ان کا 'ڈاکٹرائن'سپريم کورٹ ميں سماعت سے متعلق آصف ياسين ملک کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے حکومتی قانونی مشيروں کو بھی فوجی قوانين کا پتا نہیں تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ وزير قانون استعفیٰ دے کر ايک کونے ميں کھڑے ہو گئے اور بعد ميں پتا چلتا ہے کہ ان کے پاس تو وکالت کا لائسنس ہی نہیں ہے۔
ان کے بقول، کيا چيف آف آرمی سٹاف کے دفاع کے لیے کسی اور وکیل کی خدمات نہیں لی جا سکتیں تھیں؟
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس معاملے سے اس تاثر کو تقویت مل رہی ہے کہ پاکستان میں عدالتیں آزاد ہیں، جو پاکستان میں جمہوریت کے استحکام کے لیے اچھا شگون ہے۔