چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سے متعلق ایک اصطلاح اکثر سننے میں آتی ہے جسے 'باجوہ ڈاکٹرائن' کہا جاتا ہے۔ اس وقت جب آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے حوالے سے ایک قانونی بحث جاری ہے، یہ اصطلاح میڈیا میں دوبارہ گردش کر رہی ہے۔
اس اصطلاح کا استعمال پہلی بار 2018 میں فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل، میجر جنرل آصف غفور نے ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ 'باجوہ ڈاکٹرائن' ملک میں دیرپا امن یقینی بنانے میں معاون ثابت ہو گا۔
بعض دفاعی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اگرچہ یہ اصطلاح سرکاری نوعیت کی نہیں ہے، لیکن اس سے مراد جنرل باجوہ کا ملک میں امن کی صورتِ حال برقرار رکھنے کی کوششیں، سویلین اور ملٹری تعلقات پر ان کے نظریات اور بین الاقوامی محاذ پر پاکستان کے سفارتی تعلقات بہتر کرنے میں جنرل باجوہ کی معاونت ہیں۔
وآئس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے دفاعی تجزیہ کار لیفٹیننٹ جنرل (ر) امجد شعیب نے کہا ہے کہ 'باجوہ ڈاکٹرائن' سے مراد یہ ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ پاکستان کے اندرونی و بیرونی دفاع کی ضروریات کو کیسے دیکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جنرل باجوہ نے پاکستان کو اندرونی حملوں سے محفوظ بنانے کے لیے ردّالفساد جیسے آپریشن کیے جو اسی سوچ کا شاخسانہ ہیں۔
امجد شعیب کے بقول، دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اندرون و بیرون ملک حملوں میں ملوث عوامل کا مکمل خاتمہ جنرل باجوہ کا اہم ترین کارنامہ ہے۔ اس میں لشکرِ طیبہ جیسی کالعدم تنظیمیوں کا خاتمہ بھی شامل ہے۔
سفارتی تعلقات میں بہتری کے لیے معاونت کے حوالے سے لیفٹیننٹ جنرل (ر) امجد شعیب نے کہا کہ سی پیک کی حفاظت کو یقینی بنانا بھی ایک اہم مسئلہ تھا جسے اسی ڈاکٹرائن کے تحت ڈیل کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ چین اور امریکہ سمیت کئی اہم ممالک سے تعلقات میں بہتری اور بعض معاملات میں مالی امداد کو یقینی بنانے میں بھی جنرل باجوہ نے اسی ڈاکٹرائن کے تحت خدمات انجام دیں۔
امجد شعیب نے کہا کہ جنرل باجوہ کی سوچ کا تسلسل ان کے بعد آنے والے آرمی چیف کی پالیسیوں میں بھی جاری رہ سکتا ہے۔ لیکن ہر لیڈر کے اپنے نظریات ہوتے ہیں جن کا اثر یقینی طور پر پورے ادارے کی کارکردگی کی سمت متعین کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت بھی جنرل باجوہ کے ڈاکٹرائن کی اہمیت سمجھتی ہے اور اس پر انحصار بھی کرتی ہے۔
'باجوہ ڈاکٹرائن' کس حد تک مؤثر ہے؟ اس پر سابق لیفٹیننٹ جنرل نعیم خالد کہتے ہیں کہ یہ کسی قسم کا لکھا ہوا کوئی سرکاری کوڈ نہیں ہے۔ البتہ، اس اصطلاح سے مراد جنرل باجوہ کی پروفیشنل کارکردگی میں ان کا منفرد انداز ہے جس میں ان کا ذاتی مزاج بھی شامل ہے۔
نعیم خالد کا کہنا تھا کہ جنرل باجوہ فوج اور حکومت کے درمیان خوش گوار تعلقات استوار کرنے پر یقین رکھتے ہیں جب کہ بھارت کے ساتھ تعلقات میں بہتری کی کوششیں بھی ان کے ڈاکٹرائن کا نتیجہ ہیں۔ اسی طرح افغانستان کے ساتھ مراسم بہتر کرنے کے لیے ڈائیلاگ اور مصالحتی انداز اپنانا بھی باجوہ ڈاکٹرائن کا ہی عکاس ہے۔
دوسری جانب دفاعی و سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کہتی ہیں کہ باجوہ ڈاکٹرائن سیاست سے لے کر معیشت کے بارے میں فوج کے موجودہ سربراہ کی جارحانہ سوچ کا مظہر ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ باجوہ ڈاکٹرائن کے تحت سول و ملٹری تعلقات میں طاقت کا عدم توازن زیادہ واضح ہو گیا ہے جس کا نقصان فوج اور جمہوری اداروں کی کمزوری کی صورت میں سامنے آ سکتا ہے۔
عائشہ صدیقہ نے کہا کہ فوج کے سربراہان جمہوری ادوار میں یقیناً براہ راست کسی معاملے پر اثر انداز نہیں ہوتے۔ لیکن، جنرل باجوہ کی سربراہی میں ملک کے تمام معاشرتی شعبے ایک ان دیکھے دباؤ میں محسوس ہو رہے ہیں۔