بھارت کی فوج کے سابق میجر جنرل ایس پی سنہا نے کشمیر سے متعلق ایک ٹی وی مباحثے کے دوران کہا کہ ریپ کے بدلے ریپ اور موت کے بدلے موت دینی چاہیے۔ ان کے اس بیان پر مختلف حلقوں کی جانب سے شدید رد عمل کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
ہندی زبان کے نیوز چینل 'ٹی وی نائن بھارت ورشھ' کے پروگرام کی میزبان سمیرا شیخ نے مباحثے کے دوران متعدد بار کوشش کی کہ پروگرام میں شریک تمام افراد خاموش ہوں اور متنازع گفتگو نہ ہو تاہم اس کے باوجود ایس پی سنہا سمیت دیگر افراد اونچی آواز میں بولتے رہے۔
کئی خواتین نے ایس پی سنہا کے 'ریپ کے بدلے ریپ' کے بیان پر احتجاج بھی کیا۔
اس دوران مباحثے میں شریک افراد نے ایس پی سنہا سے کہا کہ آپ یہ کیا بول رہے ہیں؟ تو انہوں نے انتہائی جذباتی انداز میں جواب دیا کہ میں بالکل ٹھیک بول رہا ہوں۔ کشمیر میں لوگوں کی موت ہوئی ہے ان کو انصاف ملنا چاہیے۔
اس دوران پروگرام کی میزبان نے بھی ایس پی سنہا سے سوال کیا کہ کیا کوئی ایسا بول سکتا ہے کہ موت کے بدلے موت ہونی چاہیے؟َ تو اس پر انہوں نے اونچی آواز میں کہا کہ آپ بتایے کہ اس کی کیا سزا ہے۔ جس نے ریپ کیا ہو اس کی کیا سزا ہونی چاہیے۔
بھارتی خبر رساں ادارے 'اسکرول' کے مطابق ٹی وی مباحثہ دیکھنے کے لیے آنے والے شرکا میں بھی کئی نے میجر جنرل ریٹائرڈ ایس پی سنہا کے بیان کی حمایت کی۔
بھارت کے خبر رساں ادارے 'دی پرنٹ' کے مطابق ایس پی سنہا کے بیان کی حمایت کرنے والوں میں شرکا میں بیٹھی خواتین بھی شامل تھیں۔
سابق میجر جنرل سے ان کے متنازع بیان پر معافی مانگنے کے لیے بھی کہا گیا تاہم وہ اپنے بیان پر قائم رہے۔
کشمیر اور پاکستان کے ساتھ ساتھ بھارت میں فوج کے اعلیٰ افسر کے متنازع بیان پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔
'دی پرنٹ' کے مطابق بھارت کے سابق ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز لیفٹننٹ جنرل (ر) وینود بھاٹیہ کا کہنا تھا "مجھے یقین ہے کہ ایس پی سنہا کبھی بھی فرنٹ لائن پر نہیں رہے ہوں گے اور نہ ہی انہوں نے کبھی انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں حصہ لیا ہوگا۔"
ایک ٹوئٹ میں وینود بھاٹیہ نے مزید کہا کہ یہ بہت آسان ہے کہ کسی ٹھنڈے کمرے میں بیٹھ کر اظہارِ خیال کیا جائے اور فوج کے تمام اچھے کام اور قربانیاں ضائع کر دی جائیں۔
بھارت کی فوج کی سری نگر میں تعینات کور کے سابق کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ سید عطا حسنین کا کہنا تھا کہ بعض اوقات یہ درست محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کی فوج کا یہ طریقہ کار ٹھیک ہے کہ سابق فوجی افسران کی عوامی سطح پر بات کرنے کے لیے پہلے منظوری لی جائے۔
انہوں نے ایس پی سنہا کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس سے بے سمت میزائلز کا اندیشہ نہیں رہے گا۔
'دی پرنٹ' کے مطابق بھارت کی فوج نے بھی ایس پی سنہا کے بیان سے خود کو دور رکھا ہے۔
ایس پی سنہا کے حوالے سے آرمی ہیڈ کوارٹرز کے ایک اعلیٰ افسر کا کہنا تھا کہ وہ ایک سابق فوجی افسر ہیں۔ اس لیے وہ فوج کے ضابطہ اخلاق یا آرمی ایکٹ کے پابند نہیں ہیں۔
دوسری جانب پاکستان کے صدر ڈاکٹر عارف علوی نے ایس پی سنہا کے بیان کو 'ذلت آمیز' قرار دیا ہے۔
بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کا نام لے کر ایک ٹوئٹ میں صدر ڈاکٹر عارف علوی کا کہنا تھا کہ بی جے پی کے رہنما میجر جنرل ریٹائرڈ ایس پی سنہا ٹی وی پر بیٹھ کر کشمیر میں خواتین کا ریپ کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں۔
بھارت کی فوج کے سابق میجر جنرل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی خواتین کے بارے میں تصور کریں جہاں ایسے مردوں کے استثنیٰ کے ساتھ لامحدود اختیارات ہیں۔
انسانی حقوق کے بین الاقوامی ادارے ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) کی کشمیر میں رپورٹ اپنی ٹوئٹ کا حصہ بناتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ بھارت کی فوج کشمیر میں ریپ کو بطور ہتھیار استعمال کیا ہے۔
واضح رہے کہ ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ 23 سال قبل 1996 میں جاری ہوئی تھی جس میں بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سمیت خواتین کے ریپ میں سیکیورٹی اہلکاروں کا ذکر تھا۔
پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان کی کابینہ میں شامل مشیر برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے اس حوالے سے بیان میں کہا کہ بھارت کے فوجی بی جے پی کے کارندے بن چکے ہیں۔ عالمی برادری بھارتی فوج کے ایسے ذہنی بیماروں اور انسانیت کے مجرموں کے خلاف سخت ردعمل کا اظہار کرے۔
ایک اور ٹوئٹ میں ان کا مزید کہنا تھا کہ بھارتی ریٹائرڈ جنرل کی ٹی وی پر کشمیری خواتین کے ریپ کی حمایت کے بیان کی شدید مذمت کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اخلاق سے عاری اور فسطائیت سے بھرپور یہ سوچ مودی کے نازی ازم کا ناقابل تردید ثبوت ہے۔
بھارت کے انسانی حقوق کے کارکن سکیت گوخلے کا کہنا تھا کہ انہوں نے بھارت کی فوج کے سربراہ اور وزارتِ دفاع سے اس حوالے سے رابطہ کیا ہے۔
انہوں نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ بھارت کی فوج میجر جنرل (ریٹائرڈ) ایس پی سنہا کے نامناسب بیان پر اپنی پوزیشن واضح کرے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ بھارت کی فوج ان کے رینک ختم کرنے اور پینشن کی بندش کی کارروائی کا آغاز کرے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر کبھی سابق فوجی افسران کسی حکومتی جماعت سے وابستگی کے باعث ان کا مؤقف بیان کرنے لگیں تو یہ ضروری ہے کہ بھارت کی فوج اپنا مؤقف واضح کرے۔
انہوں نے ایس پی سنہا کے خلاف پولیس کے پاس شکایت درج کرنے کا بھی اعلان کیا۔
واضح رہے کہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں لاک ڈاؤن کو 100 دن سے زائد ہوچکے ہیں جس کی ابتدا رواں سال پانچ اگست کو بھارتی حکومت کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے ساتھ ہوئی تھی۔
آرٹیکل 370 اور 35 اے کی منسوخی سے کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم ہو گئی ہے۔
اس اقدام کے خلاف ممکنہ عوامی ردعمل روکنے کے لیے بھارتی حکومت نے چار اگست کی رات کو کشمیر میں کرفیو نافذ کیا تھا اور ٹیلی فون و انٹرنیٹ سروس بھی معطل کر دی تھیں۔
مذکورہ پابندیوں کے باعث زندگی کا ہر شعبہ بُری طرح متاثر ہوا ہے۔ بھارتی حکومت کا دعویٰ ہے کہ پابندیوں میں نرمی کی گئی ہے۔ لیکن بعض پابندیاں اب بھی برقرار ہیں جن سے کاروبار زندگی متاثر ہو رہا ہے۔
بھارتی حکومت کی جانب سے کشمیر میں تعلیمی ادارے کھول دیے گئے ہیں لیکن ان میں طلبہ کی حاضری نہ ہونے کے برابر ہے۔