پاکستان کی فوج کی پشاور کور کے کمانڈر لیفٹننٹ جنرل فیض حمید کی قیادت میں ایک اعلیٰ سطح کا وفد تحریک طالبان پاکستان ( ٹی ٹی پی ) سے مصالحت کے لیے مذاکرات کے سلسلے میں گزشتہ دو دن سے افغانستان کے دارالحکومت کابل میں موجود ہے۔
ملک کے طاقت ور ترین خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سابق سربراہ لیفٹننٹ جنرل فیض حمید کے دورہٴ کابل یا ٹی ٹی پی سے مذاکرات کے بارے میں سرکاری سطح پر تاحال کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔
سرحد پار افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی کے ذرائع نے وائس آف امریکہ کے رابطہ کرنے پر کابل میں لیفٹننٹ جنرل فیض حمید کی قیادت میں اعلیٰ سطح کے پاکستانی وفد سے مذاکرات کی تصدیق کی ہے۔
افغانستان میں برسرِ اقتدار طالبان کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے بھی ایک افغان صحافی کے رابطے پر اس بات کی تصدیق کی کہ لیفٹننٹ جنرل فیض حمید اور تحریک طالبان پاکستان میں مصالحت کے لیے مذاکرات جاری ہیں۔
اطلاعات کے مطابق لیفٹننٹ جنرل فیض حمید کے وفد میں فوج کے ساتھ ساتھ خفیہ اداروں کے اعلیٰ حکام شامل ہیں۔
وائس آف امریکہ نے پاکستان کے وفد کی کابل میں موجودگی کے حوالے سے کئی اعلیٰ حکام سے رابطہ کیا لیکن انہوں نے بھی اس سلسلے میں بات کرنے سے گریز کیا۔
شمالی وزیرستان سے رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے منگل کو ایوان میں طالبان کے کمانڈروں کی رہائی پر سوال اٹھایا۔ انہوں نے استفسار کیا کہ کالعدم شدت پسند تنظیم تحریکِ طالبان پاکستان کے سوات سے گرفتار کیے گئے اور عدالتوں سے سزا یافتہ دو کمانڈروں مسلم خان اور ملک محمود کو کس کی اجازت سے رہا کیا گیا ۔
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے اعلیٰ حکام اور ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات کے مستقبل کے بارے میں فی الوقت کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔
SEE ALSO: کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مصالحت کے لیے مذاکرات جاریماضیٴ قریب میں افغانستان میں طالبان کے بر سرِ اقتدار آنے کےبعد کالعدم حقانی نیٹ ورک کی وساطت سے پاکستانی حکام اور ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہوا تھا۔
ٹی ٹی پی نےگزشتہ برس یکم نومبر سے جنگ بندی کا اعلان کیا تھا۔ لیکن بعدازاں طالبان نے حکومت پر معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا اور دسمبر کے اوائل میں جنگ بندی کے خاتمے کا اعلان کر دیا تھا۔جس کے بعد اس کی پر تشدد کارروائیوں میں اضافہ ہو گیا تھا۔
ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق افغانستان میں طالبان کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد خیبر پختونخوا کے قبائلی اضلاع میں دہشت گردی اور تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے ۔
اطلاعات کے مطابق کابل میں پاکستانی حکام اور ٹی ٹی پی رہنماؤں کے درمیان مذاکرات میں حقانی نیٹ ورک کے سربراہ اور طالبان کی افغانستان میں عبوری حکومت کے وزیرِ داخلہ سراج الدین حقانی اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
رپورٹس کے مطابق لیفٹننٹ جنرل فیض حمید کی قیادت میں اعلیٰ سطح کے وفد کے ساتھ مذاکرات کے لیے تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ مفتی نور ولی محسود بھی کابل میں موجود ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
مفتی نور ولی محسود گزشتہ ہفتے اس وقت کابل پہنچے تھے جب جنوبی وزیرستان کے محسود قبائل کا 10 رکنی جرگہ مذاکرات کے لیے افغانستان گیا تھا۔
محسود قبائل کا 10 رکنی جرگہ دو دن قبل واپس پاکستان آ گیا تھا اور جرگے کے ترجمان نے آگاہ کیا تھا کہ ٹی ٹی پی کے رہنما حکومتِ پاکستان کے ساتھ بات چیت کے لیے آمادہ ہیں۔
افغانستان میں گزشتہ برس طالبان کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد حکومتِ پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان حقانی نیٹ ورک کی وساطت سے مصالحت کے لیے بات چیت شروع ہوئی تھی۔
اس وقت پشاور کے آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) پر 2014 میں حملے کے متاثرین کے سمیت پاکستان پیپلز پارٹی ، عوامی نیشنل پارٹی اور سول سوسائٹی کی بعض تنظیموں نے ان مذاکرات پر شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا۔
کابل میں دو دن سے جاری مذاکرات پر ابھی تک کسی قسم کا عوامی ردِ عمل سامنے نہیں آیا۔
پشاور کے قومی جرگے کے اہم رکن اور سماجی شخصیت خالد ایوب نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ قیامِ امن کے لیے کالعدم شدت پسند تنظیم سمیت انتہا پسندی میں ملوث تمام گروہوں کے ساتھ مصالحت کی حمایت کرتے ہیں۔
انہوں نے واضح کیا کہ ان شدت پسند تنظیموں کے ساتھ ہر قسم کے مذاکرات اور مستقبل میں طے پانے والے معاہدوں کو عوام کے سامنے لانا بہت ضروری ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
طالبان پر زور دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ اسلامی اصولوں کے مطابق ایسی کارروائیوں سے گریز کریں جسس سے لوگوں کو تکلیف پہنچے اوروہ امن و امان قائم رکھنے اور عوام کی جان و مال کی حفاظت کے لیے حکومتی اداروں کا ساتھ دیں۔
شمالی وزیرستان میں دو شدت پسند ہلاک
پاکستانی حکام اور تحریک طالبان پاکستان کے درمیان مصالحت کے لیے مذاکرات کے شروع ہونے کے فوری بعد پیر اور منگل کی درمیانی شب افغانستان سے ملحقہ قبائلی ضلع شمالی وزیرستان کی تحصیل بویہ کے ایک علاقے میں سیکیورٹی فورسز نے کارروائی میں دو اہم جنگجو کمانڈروں کو ہلاک کرنے کا دعوٰی کیا۔
سرکاری بیانات اور خیبر پختونخوا کے وزیرِ اعلیٰ کے مشیر برائے اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف نے سیکیورٹی فورسز کی کارروائی میں ہلاک ہونے والے دونوں افراد کے تحریکِ طالبان پاکستان سے منسلک ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔
تحریکِ طالبان پاکستان کے ذرائع نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ہلاک ہونے والے دونوں افراد کا ان کی تنظیم سےکوئی تعلق نہیں ہے۔
شمالی وزیرستان کے مقامی قبائل کے ذرائع نے بتایا کہ ہلاک ہونے والے دونوں جنگجو کمانڈر حافظ گل بہادر کے گروپ سے منسلک تھے۔ حافظ گل بہادر گروپ کے عسکریت پسندوں کے خلاف حکومت نے جون 2014 کے وسط میں ضربِ عضب کے نام سے فوجی آپریشن کیا تھا۔