|
درخت انسان کا سب سے قدیم اور قابل بھروسہ ساتھی ہے جو اس کی زندگی کی بہت سی ضروریات پوری کرتا ہے۔ کئی ماہرین ملک کے 25 فی صد رقبے پر جنگلات کی موجودگی کو ضروری خیال کرتے ہیں۔ جب کہ پاکستان میں جنگلات کا رقبہ پانچ فی صد سے بھی کم ہے اس لیے ملک میں جنگلات اگانے کی آوازیں اٹھتی اور درخت لگانے کی مہمات چلتی رہتی ہیں۔
پاکستان کے کل رقبے کے 4.8 فی صد حصے پر جنگلات ہیں، جس کا لگ بھگ 40 فی صد حصہ جھاڑیوں اور جڑی بوٹیوں پر مشتمل ہے۔ اس تصویر کا دوسرا تشویش ناک پہلو یہ ہے کہہر سال ایک لاکھ ایکٹر سے زیادہ رقبے پر موجود جنگلات اور درخت کاٹے جا رہے ہیں جس کی بڑی وجہ، جلانے کے لیے لکڑی حاصل کرنا، نئی آبادیاں تعمیر کرنا، یا اسے صنعتوں میں استعمال کرنا ہے۔
ورلڈ وائلڈ لائف فورم نے اپنی ایک رپورٹ میں پاکستان میں ایشیا کا دوسرا ایسا ملک قرار دیا ہے جہاں سب سے زیادہ درخت کاٹے جا رہے ہیں۔
جنگلات اور درختوں کی بڑے پیمانے پر کٹائی دوسرے کئی عوامل کے ساتھ تیزی سے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کا ایک سبب ہے۔ پاکستان میں گزشتہ کئی برسوں سے گرمی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور 2024 میں ملک کے کئی شہروں اور علاقوں میں بلند درجہ حرارت کے نئے ریکارڈ قائم ہوئے ہیں۔ گلوبل کلائمیٹ رسک انڈیکس نے اپنی 2023 کی درجہ بندی میں پاکستان کو دنیا کا پانچواں ایسا ملک قرار دیا ہے جسے گلوبل وارمنگ سے نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔
SEE ALSO: موسمیاتی تبدیلیاں پاکستان میں آم کی فصل کو کس طرح متاثر کر رہی ہیں؟پاکستان میں جنگلات کی صورتحال کا ذمہ دار کون؟
جنگلات، وائلڈ لائف، بیالوجیکل ڈائیورسٹی، سوشالوجی اور کائمیٹ چینج امور کے ایک ماہر ڈاکٹر سید محمود ناصر پاکستان میں جنگلات کی صورت حال کو قدرتی عوامل کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ جنگلات کا براہ راست تعلق بارش کی اوسط سے ہے۔ جن علاقوں میں زیادہ بارشیں ہوتی ہیں، وہاں جنگلات بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ پاکستان خشک زون میں واقع ہے اور یہ علاقہ مون سون کے آخری سرے پر ہے۔ یہاں بارش کا سالانہ اوسط 225 ملی میٹر سے بھی کم ہے۔ ان علاقوں میں درختوں کی شرح وہی ہے جتنی کہ ڈرائی زون میں ہوتی ہے۔ تاہم شمالی پہاڑی حصے میں جہاں کافی بارشیں ہوتی ہیں، وہاں کئی علاقوں میں تقریباً 30 فی صد رقبے پر جنگلات موجود ہیں۔
جنگلات کے ایک اور ماہر ڈاکٹر انیس الرحمٰن اس صورت حال کو ایک اور پہلو سے دیکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم پاکستان کے نقشے پر نظر ڈالیں تو لگ بھگ 45 فیصد رقبے پر بلوچستان ہے جہاں بہت کم علاقوں میں پانی میسر ہے۔ 12 فی صد رقبہ تھر، چولستان اور تھل کے صحراؤں نے گھیر رکھا ہے۔ شمالی حصے میں کئی علاقے 12 ہزار فٹ سے زیادہ بلند ہیں، جہاں درخت نہیں اگ سکتے۔ باقی ماندہ علاقہ پنجاب اور سندھ کے زرخیز میدانوں پر مشتمل ہے، جہاں کاشت کاری ہوتی ہے اور ملک بھر کے لیے خوراک پیدا کی جاتی ہے۔ اس میدانی علاقے میں بھی زمین کا ایک بڑا حصہ بڑے بڑے شہروں نے گھیر رکھا ہے۔ اس طرح ملک میں چار پانچ فی صد ہی ایسا علاقہ باقی رہ جاتا ہے جہاں جنگلات اگائے جا سکیں۔ وہاں پہلے سے ہی جنگلات موجود ہیں۔ جنہیں ہم بہتر بنا سکتے ہیں۔
جنگلات دو طرح کے ہوتے ہیں، قدرتی اور انسان کے اگائے ہوئے جنگلات
پاکستان میں زیادہ تر قدرتی جنگلات پہاڑی علاقوں میں ہیں جب کہ میدانی علاقوں میں موجود جنگلات عمومی طور پر انسان کے اپنے لگائے ہوئے ہیں۔ جنوبی ایشیا میں جنگلات کا محکمہ 1864 میں انگریزوں کے دور میں قائم ہوا تھا۔ اس خطے میں موجود زیادہ تر منصوبہ بند جنگلات کا تعلق برطانوی راج سے ہے۔
ڈاکٹر سیدمحمود ناصر کہتے ہیں کہ پاکستان میں جنگلات کا محکمہ اپنی استعداد کے مطابق کام کر رہا ہے اور اس نے درختوں کی تعداد میں اضافے اور ان کی دیکھ بھال کی قابل قدر کوششیں کیں ہیں۔ حکومت بھی ہر سال شجرکاری کی مہمات چلاتی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
قدرتی ماحول کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے ڈاکٹر انیس الرحمٰن، جو ہمالین وائلڈ لائف فاؤنڈیشن کے سی ای او ہیں، سینڑل قراقرم نیشنل پارک بورڈ اور پونچھ ریور نیشنل پارک کمیٹی کے رکن اور آزاد جموں و کشمر وائلڈ لائف بورڈ بھی شامل ہیں، کہتے ہیں کہ محکمہ جنگلات کی کارکردگی بظاہر اطمینان بخش ہے۔
انہوں نے ماضی میں سونامی کے نام سے معروف شجرکاری مہم کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس دوران جتنے بھی درخت لگے، اس میں زیادہ تر کردار محکمہ جنگلات کا تھا۔ 75 فی صد نئے درخت سرکاری جنگلات میں جب کہ باقی ماندہ دوسرے علاقوں میں لگائے گئے تھے۔
وہ کہتے ہیں کہ شجرکاری کی مہمات چاہے کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہوں، پاکستان کے جنگلاتی رقبے میں کوئی قابل ذکر اضافہ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ نئے جنگلات کے لیے اب زمین ہی دستیاب نہیں ہے۔ صرف پہلے سے موجود جنگلات کو گھنا کیا جا سکتا ہے۔
ایمزان کا جنگل ہر سال دو ارب ٹن کاربن ڈائی اکسائیڈ جذب کرتا ہے
جیسے جیسے گرمی کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے، دنیا بھر کی توجہ درختوں کی جانب مبذول ہو رہی ہے کیونکہ ایک درمیانے سائز کا درخت روزانہ 48 پونڈ کاربن ڈائی اکسائیڈ گیس جذب کرتا ہے۔ جنگلات کی شکل میں اس کے فائدے کا اندازہ فرانس کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ایگریکلچر، فوڈ اینڈ انوائرمنٹ (INRAE) کی ایک رپورٹ سے لگایا جا سکتا ہے کہایمزان کا برساتی جنگل ہر سال دو ارب ٹن کاربن ڈائی اکسائیڈ جذب کرتا ہے۔ کاربن گیسیں گلوبل وارمنگ کا ایک اہم سبب ہیں۔
امریکہ کی فارسٹ سروس کی ایک رپورٹ کے مطابق درخت کے سائے میں دھوپ کے مقابلے میں درجہ حرارت 11 سے 19 درجے سینٹی گریڈ تک کم ہوتا ہے۔
سید محمود ناصر کہتے ہیں کہ ہمارے شہر اس لیے تپ رہے ہیں کہ وہاں درختوں کی بجائے کنکریٹ کے جنگل اگائے جا رہے ہیں۔ وہ یہ مشورہ دیتے ہیں کہ ہمیں گرمی اور فضائی آلودگی سے بچنے کے لیے شہری علاقوں میں زیادہ سے زیادہ درخت اور پودے لگانے ہوں گے۔ اگر زمین پر جگہ نہ ہو تو مکانوں اور عمارتوں کی چھتوں پر بھی پودے اور سبزیاں لگائی جا سکتی ہیں، جس سے ہمیں دوہرا فائدہ ہو گا۔ ان کے خیال ہیں شہری علاقوں میں درخت اور پودے لگانے سے درجہ حرارت کو کم ازکم 5 درجے سینٹی گریڈ تک نیچے لایا جا سکتا ہے۔
SEE ALSO: پاکستان میں تین برس میں گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں 20 فی صد اضافہمیٹرک کی سند کو درخت لگانے سے مشروط کرنے کی تجویز
انیس الرحمٰن بھی آبادی والے علاقوں میں شجرکاری کے حامی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ شہروں میں، گھروں کے صحن، گلی یا سڑک کے کنارے یا پارکوں میں درخت لگانے کی بہت گنجائش موجود ہے۔ ان کی تجویز ہے کہ اگر میٹرک کی سند کو ایک درخت لگانے سے مشروط کر دیا جائے تو ملک میں ہر سال لاکھوں درختوں کا اضافہ ہو سکتا ہے۔
انیس الرحمٰن اس رائے سے اتفاق نہیں کرتے کہ پاکستان میں درختوں کی کمی کے اثرات گرمی کی شدت اور آلودگی کی صورت میں ظاہر ہو رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہاں گرمی اور آلودگی میں اضافہ انسانی لاپرواہی سے ہو رہا ہے، جس کی ایک مثال یہ ہے کہ ہر سال کسان نئی فصل کی کاشت کے لیے کھیتوں میں پرانی فصل کی جڑوں کو آگ لگا کر صاف کرتے ہیں جس کا دھواں کئی ہفتوں تک ماحول کو آلودہ رکھتا ہے اور آلودگی کے ساتھ ساتھ صحت کے مسائل بھی پیدا کرتا ہے۔
مقامی درختوں کی جگہ مختلف شجر کاری کے ماحول پر اثرات
پاکستان میں کچھ عرصے سے شہروں میں درخت اور پودے لگانے کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے، جسے ماہرین خوش آئند قرار دیتے ہیں۔ شہروں میں پودوں کی نرسریوں کی تعداد بڑھ رہی ہے جہاں سینکڑوں اقسام کے پودے فروخت کے لیے پیش کیے جاتے ہیں۔ ناصر محمود اور انیس الرحمٰن دونوں کا یہ کہنا ہے کہ گھروں کے لیے علاقے کی آب و ہوا اور ماحول سے مطابقت رکھنے والے پودوں اور خاص طور پر مقامی پودوں کا انتخاب کرنا چاہیے۔ بیرونی علاقوں کے پودے اجنبی ماحول میں بمشکل ہی پنپتے سکتے ہیں۔
SEE ALSO: پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیاں کیوں رونما ہو رہی ہیں؟ماضی میں پاکستان کے میدانی علاقوں میں کیکر، بیری، شہتوت، لسوڑا، نیم اور اسی طرح کے دوسری مقامی درخت کثرت سے دیکھنے میں آتے تھے، جن کی جگہ اب دوسری اقسام کے درخت لگائے جا رہے ہیں۔ انیس الرحمٰن کہتے ہیں کہ یہ تبدیلی ہمارے ماحولیاتی نظام پر منفی اثر ڈال رہی ہے۔
پرندوں کی کئی اقسام جو ان درختوں کی وجہ سے آتی تھیں، اب گھٹ گئی ہیں۔ ان درختوں کے پھل اور دیگر اجزا، ادویات اور کئی صنعتوں میں استعمال ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ کئی خود رو جڑی بوٹیوں کو صاف کر کے دوسرے پودے لگائے جا رہے ہیں۔ ان جڑی بوٹیوں کے اجزا ادویات سازی میں کام آتے ہیں جنہیں اب درآمد کرنا پڑتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں اپنے مقامی درختوں اور پودوں بھی توجہ دینی ہو گی۔
پاکستان کے دیہی علاقوں میں لوگ اپنے طور پر بھی شجرکاری کرتے ہیں جن کا مقصد سائے کے ساتھ ساتھ فرنیچر اور گھریلو ضروریات کے لیے لکڑی حاصل کرنا ہوتا ہے۔ زیادہ تر درخت کھیتوں کی منڈیروں پر لگائے جاتے ہیں۔
اب کئی علاقوں میں زمینداروں نے کاروباری مقاصد کے لیے چھوٹے چھوٹے جنگل بھی لگانا شروع کر دیے ہیں۔ وہاں لگائے گئے درخت پانچ چھ سال میں فروخت کے لیے تیار ہو جاتے ہیں اور ان کی لکڑی چپ بورڈ، ماچس،کاغذ اور فرنیچر سمیت کئی دوسرے شعبوں میں استعمال کی جاتی ہے۔
پاکستان اپنے رقبے، جغرافیائی ساخت، موسمی حالات اور آبادی کے پیش نظر اپنے جنگلات میں زیادہ قابل ذکر اضافہ نہیں کر سکتا، لیکن ایسے اقدامات ضرور کر سکتا ہے جن کی مدد سے ملک میں موجود درختوں کے ثمرات سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جا سکے۔