رسائی کے لنکس

اہم ٹیکنالوجیز پرتحقیق میں چین کو امریکہ پر سبقت حاصل ہو گئی


ایک خاتوں بیجنگ میں ایک عالمی روبوٹ کانفرنس میں روبوٹک پانڈا کے ساتھ تصویر کھنچواتے ہوئے۔اے پی فوٹو
ایک خاتوں بیجنگ میں ایک عالمی روبوٹ کانفرنس میں روبوٹک پانڈا کے ساتھ تصویر کھنچواتے ہوئے۔اے پی فوٹو
  • ایک نئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چین نے 80 فی صد جدید اور کلیدی ٹیکنالوجیز پر برتری حاصل کر لی ہے۔
  • چین نے امریکہ پر یہ سبقت گزشتہ دو عشروں کے دوران حاصل کی ہے۔
  • ٹیکنالوجی کے صرف 7 شعبوں میں امریکہ کی برتری ہے۔
  • جدید ٹیکنالوجیز میں چین کی تیز تر ترقی کا سبب حکومتی سرپرستی اور بھاری سرمایہ کاری ہے۔
  • چین سے اصل خطرہ دفاعی ٹیکنالوجیز میں آگے نکلنے سے ہو سکتا ہے۔
  • چین اپنی ٹیکنالوجیز کی ترقی کے لیے زیادہ تر امریکہ، جنوبی کوریا اور تائیوان سے حاصل ہونے والے مائیکرو پراسیسر چپ پر انحصار کرتا ہے۔
  • امریکہ جدید مائیکرو پراسیسر چپ تک چین کی رسائی روکنے کے لیے اقدامات کر رہا ہے۔

تیکنکی مسابقت پر نظر رکھنے والے ایک آسٹریلوی تھینک ٹینک نے کہا ہے کہ چین کو تقریباً 80 فی صد اہم ٹیکنالوجیز پر تحقیق میں عالمی رہنما کی حیثیت حاصل ہو چکی ہے، اور اب وہ دفاع سے متعلق ٹیکنالوجی پر اجارہ داری حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

تجزیہ کاروں کا مزید کہنا ہے کہ چین کو یہ سبقت حکومت کی جانب سے بھاری سرمایہ کاری کے باعث گزشتہ دو عشروں کے دوران حاصل ہوئی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس ترقی کے باوجود ڈیجیٹل ٹیکنالوجی میں استعمال ہونے والے کلیدی اجزا پر بیجنگ کا انحصار اب بھی دوسرے ملکوں پر ہے اور اس میں وہ خودکفالت سے خاصا دور ہے۔

حکومت کی سرمایہ کاری سے چلنے والے آسٹریلین اسٹریٹیجک پالیسی انسٹی ٹیوٹ (ASPI) کی جانب سے حال ہی میں جاری ہونے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چین نے 2019 سے 2023 کے پانچ سال کے عرصے کے دوران 64 میں سے 57 جدید ٹیکنالوجیز پر تحقیق کی ہے۔

تھینک ٹینک ASPI کلیدی ٹیکنالوجیز کے حوالے سے دنیا کے ممالک کی اختراعی صلاحیتوں کی درجہ بندی کرتا ہے جس کا تعین وہ ان شعبوں کے سرفہرست جرائد میں شائع ہونے والے تحقیقی مقالوں میں کی بنیاد پر کرتا ہے جن میں مصنوعی ذہانت، بائیو ٹیکنالوجی، سائبر اور دفاع سمیت مختلف شعبوں کی کلیدی ٹیکنالوجیز شامل ہیں۔

بیجنک میں سیمی کنڈکٹر چپ بنانے والی ایک فیکٹری میں کارکن کام کر رہے ہیں۔ فائل فوٹو
بیجنک میں سیمی کنڈکٹر چپ بنانے والی ایک فیکٹری میں کارکن کام کر رہے ہیں۔ فائل فوٹو

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چین اور امریکہ نے دو عشروں کے دوران جدید ٹیکنالوجیز کی تحقیق میں مؤثر طریقے سے اپنے درجات تبدیل کیے ہیں۔

چین 2003 اور 2007 کے عرصے میں صرف تین ٹیکنالوجیز میں قیادت کر رہا تھا لیکن اب اس نے تیزی سے امریکہ کی جگہ لے لی ہے جو اب صرف 7 کلیدی ٹیکنالوجیز میں آگے ہے۔

جوش کینیڈی وائٹ سنگاپور میں مقیم ایک ٹیکنالوجی سٹرٹیجسٹ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ گزشتہ دو عشروں کے دوران تحقیق کے میدان میں چین کی تیز رفتار ترقی کا سبب ریاست کی جانب سے سرپرستی اور سرمایہ کاری کا نتیجہ ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ چین خاص طور پر مصنوعی ذہانت، کوانٹم کمپوٹنگ اور طیاروں کے جدید انجنوں جیسے شعبوں میں سخت محنت کر رہا ہے جہاں وہ ابھی تک پیچھے ہے۔

اس سال دس ٹیکنالوجیز ک ’ہائی رسک‘ کے طور پر درجہ بندی کی گئی ہے جن میں زیادہ تر کا تعلق دفاعی صنعت سے ہے۔

ایک مشاورتی کمپنی پروٹوسٹار سٹریٹیجی کے بانی ٹوبیاس فیکن نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ اور مستقبل کے جیوپولیٹیکل تناظر میں دفاع سے متعلق 24 شعبوں جن میں ریڈارز اور درونز شامل ہیں، چین کی جانب سے ممکنہ اجارہ داری کا خطرہ ہے۔

چین کے صدر جن پنگ 2015 میں شروع ہونے والے ’ میڈ ان چائنا 2025‘ کے وژن کو آگے بڑھا رہے ہیں جس کا مقصد اہم شعبوں میں بینجگ کی خودانحصاری کو ٹھوس بنیادوں پر استوار کرنا اور چین کو عالمی ٹیکنالوجی کا پاور ہاؤس بنانا ہے۔

چین کے عزائم پر واشنگٹن گہری نظر رکھ رہا ہے اور بائیڈن انتظامیہ جدید ٹیکنالوجی تک چین کی رسائی محدود کرنے کے لیے کام کر رہی ہے۔

گزشتہ ہفتے امریکہ نے چین برآمد کیے جانے والی اہم ٹیکنالوجی پر نئے برآمدی کنٹرول متعارف کرائے ہیں جن میں مائیکرو پراسیسر چپ بنانے والے آلات اور کوانٹم کمپیوٹرز اور دیگر اجزا شامل ہیں۔

امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے صحافیوں کو بتایا کہ واشنگٹن اس جدید امریکی ٹیکنالوجی کے استعمال کو روکنے کیے ضروری کارروائی کرتا رہے گا جس سے امریکہ کی قومی سلامتی کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔

امریکہ کی جانب سے چین کی مائیکروپراسیسر چپ انڈسٹری کو آگے بڑھنے سے روکنے کی مسلسل کوششوں کا مطلب یہ ہے کہ بیجنگ کو جدید ٹیکنالوجی کے حصول کے لیے نئے راستے ڈھونڈنے ہوں گے۔

سنگاپور کے جاش کینیڈی وائٹ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ چین کو اب بھی اعلیٰ میعار کے سیمی کنڈیکٹر بنانے کے لیے تائیوان، امریکہ اور جنوبی کوریا پر انحصار کرنا پڑ رہا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ سیمی کنڈیکٹر چپ میں خود کفالت میں کمی، آرٹیفیشل ٹیکنالوجی، کوانٹم کمپوٹنگ اور دفاعی آلات کو ترقی دینے کی چین کی کوششوں میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔

چین چونکہ کلیدی ٹیکنالوجی کی تحقیق میں اپنی برتری برقرار رکھے ہوئے ہے، اس لیے اس بارے میں سوالات اٹھ رہے ہیں کہ وہ ان شعبوں میں کیسے آگے بڑھ رہا ہے۔

گزشتہ سال اکتوبر میں پانچ ملکوں کے انٹیلی جینس کے اتحاد، فائیو آئیز انٹیلی جینس الائنس نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا تھا جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ چین دوسرے ملکوں سے انٹلکچوئل پراپرٹی چرا رہا ہے۔ اس انٹیلی جینس الائنس میں امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور برطانیہ شامل ہیں۔

امریکہ کے ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کرسٹوفر ورائے کہتے ہیں کہ انٹلکچوئل پراپرٹی کی چوری ایک ایسا بڑا خطرہ ہے جس کی کوئی نظیر موجود نہیں ہے۔

کینیڈی وائٹ ان سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ چین کی بعض ٹیکنالوجیز کی ترقی اور انٹلکچوئل پراپرٹی کی چوری میں ایک تعلق موجود ہے۔

ASPI کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت، عالمی تحقیقی جدت طرازی کے ایک اہم مرکز کے طور پر ابھر رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق بھارت اب 64 ٹیکنالوجیز میں سے 45 ٹیکنالوجیز کے پانچ سرفہرست ممالک میں شامل ہے۔

فیکین کہتے ہیں ایشیا بحرالکاہل کے ممالک بھارت کی ٹیکنالوجی میں بڑھتی ہوئی مہارت اور اثر و رسوخ کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ بھارت مستقبل میں چین کی جانب سے ٹیکنالوجیز کی فراہمی پر ممالک کے بڑھتے ہوئے انحصار کا بھی مقابلہ کر سکے گا۔

فورم

XS
SM
MD
LG