بھارت کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے دو رہنماؤں کے پیغمبرِ اسلام سے متعلق متنازع بیان کے بعد ملک بھر میں ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔ تجزیہ کار اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ حالیہ تنازع کا اثر نئی دہلی کے مسلم ملکوں کے ساتھ تعلقات پر پڑ سکتا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت میں ہندوتوا گروپوں کی جانب سے مسلم مخالف اقدامات و بیانات اور ان پر حکومت کی خاموشی پر پہلے بھی خلیجی اور اسلامی ملکوں میں ردعمل آتا رہا ہے۔ لیکن اب کئی ممالک باضابطہ طور پر اس احتجاج میں شامل ہو گئے ہیں۔
بی جے پی کی مرکزی ترجمان نوپور شرما نے گزشتہ ہفتے ایک ٹی وی پروگرام کے دوران پیغمبرِ اسلام کے خلاف متنازع ریمارکس دیے تھےجب کہ بی جے پی کے نئی دہلی میں میڈیا سیل کے سربراہ نوین کمار جندل نے اسی قسم کا ایک بیان ٹوئٹ کرنے کے بعد ڈیلیٹ کر دیا تھا۔
مذکورہ دونوں رہنماؤں کے متنازع بیانات پر شدید عوامی اور بیرونی ردِ عمل کے بعد بی جے پی نے دونوں رہنماؤں کو پارٹی سے نکال دیا ہے۔
بھارت کے مختلف شہروں میں بی جے پی رہنماؤں کے خلاف احتجاج کا دائرہ وسیع ہوتا جا رہا ہے اور نوپور شرما اور نوین کمار کی گرفتاری کے مطالبات بھی سامنے آ رہے ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کانگریس، سماج وادی پارٹی، بی ایس پی، عام آدمی پارٹی اور آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین سمیت دیگر کئی جماعتوں نے بی جے پی رہنماؤں کے بیانات کی مذمت کی ہے۔
دہلی پولیس کے اسپیشل سیل نے مبینہ طور پر نوپور شرما کو ہراساں کرنے اور دھمکی دینے پر نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ بھی درج کر لیا ہے۔
SEE ALSO: پیغمبرِ اسلام سے متعلق متنازع بیان: عرب ممالک میں بھارتی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہممغربی ایشیا امور کے ماہر پروفیسر اے کے پاشا پیغمبرِ اسلام سے متعلق متنازع بیان کے بعد پیدا ہونے والی صورتِ حال پر کہتے ہیں بی جے پی رہنماؤں کے بیانات کی وجہ سے اسلامی و خلیجی ملکوں سے بھارت کے تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سےبات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بی جے پی قیادت کی اپنے دونوں رہنماؤں کے خلاف کارروائی اسلامی ملکوں میں احتجاج کا نتیجہ ہے۔ان کےبقول یہ بات واضح ہے کہ اگر اسلامی ملکوں کی جانب سے احتجاج سامنے نہ آتا تو بی جے پی رہنماؤں کے خلاف کارروائی بھی نہ ہوتی۔
'اسلامی ممالک چین اور ترکی سے مصنوعات کی درآمد کر سکتے ہیں'
سینئر تجزیہ کار یوگیش پانڈے کے خیال میں بی جے پی رہنماؤں کے بیانات اشتعال انگیز اور قابلِ اعتراض ہیں۔ مسلم ملکوں کے ردعمل کے بعد بی جے پی نے جو کارروائی کی ہے اس میں بہت تاخیر کر دی ہے اور یہ کارروائی بہت معمولی ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس وقت بھارت میں مسلمانوں کو جس طرح ہدف بنائے جانے کا پرچار ہو رہا ہے اس سے بھارت کو اقتصادی نقصان ہو سکتا ہے۔
دوسری جانب ریزرو بینک آف انڈیا کے سابق گورنر رگھو رام راجن نےپہلے ہی اس خدشے کا اظہار کر دیا تھا کہ اسلامی و عرب ممالک بھارتی مصنوعات اور مین پاور کا بائیکاٹ کر دیں گے۔
یاد رہے کہ کویت، قطر، سعودی عرب،بحرین، عمان اور متحدہ عرب امارات پر مبنی خلیج تعاون کونسل کے ساتھ 21-2020 میں بھارت کی تجارت کا کل حجم 90 ارب ڈالر تھا۔ خلیجی ملکوں میں لاکھوں بھارتی شہری رہتے اور کام کرتے ہیں جو اپنے آبائی وطن زرِ مبادلہ بھیجتے ہیں۔
اے کے پاشا کے مطابق "اگر بھارت میں اسی طرح مسلمانوں کو ہدف بنایا جاتا رہا تو ممکن ہے کہ اسلامی ممالک میں جو کوآپریٹیو اسٹورز ہیں وہ بھارتی مصنوعات کے بجائے چین، ترکی یا یورپ کی مصنوعات درآمد شروع کر دیں گے۔"
کویت میں بی جے پی اور آر ایس ایس کے رہنماؤں کے دوروں پر پابندی کی سفارش کی جا رہی ہے جب کہ عمان کے مفتیٔ اعظم نے پیغمبرِ اسلام کے خلاف متنازع بیان پر مسلم امہ کو یکجا ہونے کی اپیل کی ہے۔ ان ملکوں میں بھارتی تارکین وطن کی تنظیمیں بھی پریشان ہیں۔
بی جے پی نے اپنے وضاحتی بیان میں کہا ہے کہ توہین آمیز بیان دینے والے مٹھی بھر لوگ ہیں۔ لیکن یوگیش پانڈے اس دلیل کو مسترد کرتے ہیں۔ ان کے مطابق نوپور شرما اور نوین کمار جندل نے جو بیانات دیے وہ بی جے پی اور آر ایس ایس کا آفیشل مؤقف ہے جس کا اظہار ان کے ترجمان کرتے رہتے ہیں اور حکومت کی جانب سے ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ خلیجی ملکوں کی جانب سے جو ردعمل سامنے آیا ہے اس کے بعد بی جے پی حکومت بظاہر گھبرا ئی ہوئی ہے۔ اگر اسی طرح کا ردعمل ملک کے اندر بھی ہونے لگا تو پھر حکومت کے لیے اسےسنبھالنا مشکل ہو گا۔
یوگیش پانڈے کے بقول، " آج بھارت کے بزرگ مسلمان اور خواتین سہمی ہوئی ہیں اور مسلم نوجوان خو دکو غیر محفوظ محسوس کر رہے ہیں۔ حالیہ برسوں کے دوران ملک میں کچھ ہوا ہے اسے وہ اپنی توہین و تذلیل سمجھتے ہیں۔ "
انہوں نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا کہ اگر اس قسم کے بیانات و اقدامات کا سلسلہ بند نہ ہوا تو بڑے پیمانے پر ملک کے اندر بھی ردِ عمل آ سکتا ہے۔