پاکستان کی حال ہی میں سامنے آنے والی قومی سلامتی کی پالیسی میں 'جیو اسٹرٹیجک' کے روایتی تصور سے ہٹ کر جیو اکنامکس کو ملک کی سلامتی کے تقاضوں کے لیے اہم قرار دیا گیا ہے۔ لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ پالیسی کو مزید فعال بنانے کے لیے اس پر پارلیمنٹ میں بحث ضروری ہے۔
قومی سلامتی سے متعلق اس نئی پالیسی میں قومی ہم آہنگی، علاقائی و داخلی سلامتی اور شہریوں کی فلاح و بہبود کے تقاضوں کے تحت اقتصادی امکانات کو عملی شکل دینے پر زور دیا گیا ہے۔
مذکورہ پالیسی کو پاکستان کی قومی سلامتی سے متعلق پہلی پالیسی کہا جا رہا ہے اور یہ پالیسی ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب مبصرین اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے پاکستان کو ایک مشکل معاشی صورتِ حال کا سامنا ہے۔
قومی سلامتی سے متعلق عہدے دار یہ کہہ چکے ہیں کہ یہ پالیسی پاکستان کی ایگزیگٹو نے عسکری اور دیگر اداروں کی مشاورت اور اتفاق رائے سے وضع کی ہے۔ لیکن حزبِ اختلاف کی جماعتوں کا اصرار ہے کہ اس پالیسی کو پارلیمان میں زیرِ بحث لانا ضروری ہے۔
پاکستان کے ایوانِ بالا (سینیٹ) کی ڈیفنس کمیٹی کے سربراہ سینیٹر مشاہد حسین سید کہتے ہیں کہ پاکستان کی سلامتی کے عسکری پہلو باعثِ اطمینان ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے مشاہد حسین سید نے کہا کہ قومی سلامتی پالیسی کی دستاویز میں ایک ایسی پالیسی کے خد و خال بیان کیے گئے ہیں جس میں خارجی اور دفاعی پہلوؤں کے ساتھ ہیومن سیکیورٹی، موسمیاتی تبدیلیاں، فوڈ سیکیورٹی، پانی کی قلت اور عالمگیر وباؤں سے نمٹنے کے معاملات شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ چار عشروں سے پاکستان کی قومی سلامتی یا خارجہ پالیسی کے امور کا محور افغانستان رہا ہے۔ لیکن اب افغانستان سے غیر ملکی فورسز کے انخلا کے بعد خطے میں پیدا ہونے والی نئی تبدیلیوں کے پیشِ نظر ایک جامع پالیسی کی ضرورت تھی۔
SEE ALSO: قومی سلامتی کے مشیر کی قیادت میں پاکستانی وفد کابل کا دورہ کرے گاماہرِ معیشت ڈاکٹر حفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ پاکستان کی معیشت اس وقت دباؤ میں ہے۔ ملک کی سلامتی اور دفاعی ضروریات کے لیے بھی وسائل کافی نہیں ہیں۔ اس لیے پاکستان کی توجہ کا محور 'جیو اسٹرٹیجک' کے بجائے 'جیو اکنامکس' پر ہے۔
ان کے بقول قومی سلامتی کی نئی پالیسی میں معیشت کو ٹھوس بنیادوں پر استوار کرنے پر زور دیا گیا ہے تاکہ ملک کے دفاع اور عوامی فلاح و بہبود کے لیے اپنے وسائل پر انحصار کیا جائے۔
اگرچہ قومی سلامتی سے متعلق عہدیداروں کا کہنا ہے کہ یہ پالیسی ملک کی سیاسی قیادت نے وضع کی ہے اور اس پر عمل درآمد قومی سلامتی کی کمیٹی کی ذمہ داری ہو گی۔ لیکن سینیٹر مشاہد حسین کہتے ہیں ملک کی سلامتی سے متعلق قومی پالیسی کو سیاسی اتفاقِ رائے کے لیے پارلیمان میں زیرِ بحث لانا ضروری ہے۔
مشاہد حسین کے بقول پاکستان میں پارلیمان ایک اہم اسٹیک ہولڈر ہے اور گزشتہ پندرہ سے بیس برسوں کے دوران بیشتر بڑے معاملات میں پارلیمان نے اہم کردار ادا کیا ہے۔
ان کے بقول، پارلیمان نے آرمی پبلک اسکول کے حملے کے بعد نیشنل ایکشن پلان کو وضع کرنے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا۔ 2003 میں عراق جنگ ہو یا 2015 میں یمن جنگ ہر اہم موقع پر پارلیمان کا کردار نمایاں رہا ہے۔
قومی سلامتی پالیسی پر پارلیمان میں بحث کیوں نہیں ہوئی؟
حکومتی عہدیداروں نے اگرچہ قومی سلامتی پالیسی سے متعلق پارلیمان کی مشترکہ ڈیفنس کمیٹی کو بریفنگ دی ہے۔ لیکن مشاہد حسین کا کہنا ہے حکومت کو چاہیے کہ وہ اسے پارلیمان میں پیش کرنے سے پیچھے نہ ہٹے۔
انہوں نے کہاکہ قومی سلامتی کی پالیسی کی سیاسی اونر شپ ہونی چاہیے اور حکومت پارلیمان میں اس پر بحث کرائے۔ تاہم پاکستان کی قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف کہہ چکے ہیں کہ دیگر ملکوں کی طرح کسی بھی پالیسی کو تشکیل دینے کا اختیار ایگزیکٹو کا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
مقامی میڈیا میں سامنے آنے والی رپورٹ کے مطابق معید یوسف کہہ چکے ہیں کہ وسیع اتفاق رائے کے لیے حکومت قومی سلامتی کی پالیسی کو پارلیمان اور پارلیمانی کمیٹیوں کے سامنے پیش کرنے کے لیے تیار ہے۔
یاد رہے کہ پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے جمعے کو قومی سلامتی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے قرض حاصل کرنے کی وجہ سے ملکی سلامتی متاثر ہوتی ہے۔
وزیرِ اعظم کے اس بیان پر سینیٹر مشاہد حسین کہتے ہیں پاکستان اگر قرضے حاصل کرے گا تو اصولی، آزادانہ اور قومی مفاد کے فیصلے کرنے سے قاصر ہو گا کیوں کہ اگر مالیاتی اداروں سے قرضے حاصل کیے جاتے ہیں تو ان کے ساتھ شرائط عائد ہو جاتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کسی بھی ملک کو آزادانہ فیصلوں کے لیے معیشت کو بیرونی دباؤ سے آزاد رکھنا ہو گا۔ پاکستان اب تک 22 مرتبہ آئی ایم ایف کے پاس جا چکا ہے لیکن اب معیشت کو ٹھوس بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے پاکستان کو اپنی ترجیحات تبدیل کرنا ہوں گی۔
جیو اسٹرٹیجک کے بجائے جیو اکنامکس پر توجہ کیوں؟
معاشی ماہر اور سابق وزیرِ خزانہ حفیظ پاشا کہتے ہیں کہ قومی سلامتی کی خواہشات کے تحت پاکستان نے خطے کو مربوط کرنے کے لیے سی پیک منصوبہ شروع کیا تھا لیکن ایک تاثر یہ ہے کہ یہ منصوبہ سست روی کا شکار ہے۔
ان کے خیال میں جب تک افغانستان کی صورتِ حال بہتر نہیں ہوتی اس وقت تک علاقائی رابطوں کا فروغ مشکل ہو گا۔
لیکن حفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ سی پیک کے منصوبوں کی وجہ سے یہ توقع تھی کہ پاکستان کے علاقائی اقتصادی رابطے فروغ پا سکیں گے لیکن فی الحال اس کے ثمرات دکھائی نہیں دے رہے۔
حفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ پاکستان کی مشرقی سرحد پر تجارت تعطل کا شکار ہے۔ لیکن بنگلہ دیش اور سری لنکا سے جاری ہے۔
حفیط پاشا کے بقول پاکستان کو مغرب کی طرف دیکھنا چاہیے اور اقتصادی تعاون کی تنطیم جس میں ترکی، ایران اور پاکستان شامل ہیں اسے منظم کرنا چاہیے۔ لیکن ایران پر پابندیوں کی وجہ سے ایران کے ساتھ بھی تجارت نہ ہونے کے برابر ہے اور پاکستان ایران گیس پائپ لائن منصوبہ بھی مکمل نہیں ہو سکا ہے۔
لیکن بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کو بھارت کے ساتھ تجارتی روابط کو فروغ دینا چاہیے جو پاکستان کے لیے اقتصادی طور پر بہتر ہو گا۔
حفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ پاکستان کو قومی سلامتی کی پالیسی کے ساتھ پارلیمان کے پلیٹ فارم سے اتفاقِ رائے سے چارٹر آف اکانومی وضع کرنے کی ضرورت ہے۔