افغان طالبان نے اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل مانیٹرنگ کمیٹی(یو این ایس سی) کی اس رپورٹ کو مسترد کردیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ طالبان کے اب بھی القاعدہ کے ساتھ روابط ہیں۔
افغان طالبان نے کہا ہے کہ افغانستان میں اب القاعدہ کا کوئی وجود نہیں اور یو این ایس سی کی رپورٹ میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔
یو این ایس سی کی منگل کو جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ افغانستان عالمی سطح پر دہشت گردی کے لیے نمایاں اہمیت رکھتا ہے جہاں 20 کے قریب دہشت گرد گروہ کام کر رہے ہیں۔
رپورٹ مرتب کرنے والے ایک رکن نے اس جانب بھی واضح اشارہ کیا تھا کہ ان گروہوں کا مقصد دیگر خطوں میں اپنا اثر و رسوخ پھیلا کر وہاں انتہا پسندانہ سوچ کو مزید پروان چڑھانہ ہے۔
رپورٹ کے مطابق افغانستان میں طالبان کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد تحریک طالبان پاکستان ( ٹی ٹی پی) کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے جو کہ افغان سرحد سے منسلک قبائلی علاقہ جات میں اپنے آپ کو منظم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کچھ دیگر دہشت گرد تنظیمیں بھی ٹی ٹی پی کی آڑ میں افغانستان میں 'آپریٹ' کر رہی ہیں۔
مبصرین کے مطابق یو این ایس سی رپورٹ میں پاکستان کی جانب سے لگائے جانے والے ان الزامات کو بھی تقویت ملتی ہے جس کے مطابق کالعدم ٹی ٹی پی کے جنگجو افغان سرزمین کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان میں حملہ آور ہوتے ہیں۔
انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹیڈیزسے منسلک دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر) سید نظیر احمد کا کہنا ہے کہ طالبان کے اقتدار حاصل کرنے کے پہلے سال پاکستان کے اندر دہشت گردی کے واقعات میں 57 فی صد اور دوسرے سال 79 فی صد تک اضافہ ہوا ہے۔
SEE ALSO: افغانستان ہمسایہ اور برادر ملک ہونے کا حق ادا نہیں کر رہا: وزیرِ دفاعرواں ماہ بلوچستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں 12 سیکیورٹی اہلکاروں کی ہلاکت پر پاکستان کی فوج کی اعلیٰ قیادت نے بھی افغانستان میں ٹی ٹی پی کی مبینہ پناہ گاہوں پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے ایک بیان میں متنبہ کیا تھا کہ اس طرح کے حملے ناقابلِ برداشت ہیں اور ان کی روک تھام کے لیے مؤثر جوابی کارروائی کی جائے گی۔
افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بھی ایک بیان میں کہا تھا کہ طالبان حکومت اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے اندر کارروائیوں کےلیے استعمال ہونے کی اجازت نہیں دیتی۔
کالعدم ٹی ٹی پی کی جانب سے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے ساتھ شیئر کیے گئے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق کالعدم تنظیم نے ملک بھر میں رواں برس ابتدائی چھ ماہ کے دوران 300 سے زائد حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
مبصرین کے مطابق 2014 میں فوج کی جاب سے کیے گئے آپریشن 'ضربِ عضب' کے نتیجے میں ٹی ٹی پی کا شیرازہ بکھر گیا تھا تاہم بعد میں کالعدم تنظیم کے سربراہ مفتی نور ولی محسود کی سربراہی میں تنظیم دوبارہ منظم ہوگئی تھی۔
Your browser doesn’t support HTML5
پاکستان میں ٹی ٹی پی کے بڑھتے ہوئے حملوں پر خیبر پختونخوا کے سابق سیکریٹری داخلہ سید اختر علی شاہ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی موجودگی کے وقت ٹی ٹی پی افغان طالبان کے شانہ بشانہ لڑ رہی تھی جس کی وجہ سے ان کی توجہ بٹی ہوئی تھی۔ تاہم اب غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد ٹی ٹی پی کی تمام تر توجہ پاکستان پر مرکوز ہے۔
انہوں نے کہا کہ ٹی ٹی پی کے جنگجو جھتوں کی صورت میں حملہ آور ہوتے ہیں جن سے نمٹنا سیکیورٹی فورسز کے لیے بڑا چیلنج ہے۔
اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل مانیٹرنگ کمیٹی کی رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ ٹی ٹی پی کے جنگجو سرحدسے ملحقہ علاقوں سمیت شہری علاقوں میں سافٹ ٹارگٹس کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
'ٹی ٹی پی کےحملے نور ولی محسود کی پالیسیوں کا تسلسل ہیں'
صرف گزشتہ ہفتے کالعدم تنظیم کے جنگجوؤں نے پشاور کے گردونواح میں متعدد مقامات پر پولیس اہلکاروں کو نشانہ بناتے ہوئے بھاری جانی و مالی نقصان پہنچایا۔
سید اختر علی شاہ کے مطابق پولیس چوں کہ کسی کینٹونمنٹ میں نہیں ہوتی۔اس لیے وہ سافٹ ٹارگٹ کے زمرے میں آتی ہے۔
مبصرین کے مطابق پاکستان میں ٹی ٹی پی کے بڑھتے ہوئے حملوں کے تناظر میں شدید احتجاج کے پیش نظر طالبان حکومت نے سرحدی علاقوں سے ٹی ٹی پی کے مخصوص جھتوں کو وہاں سے دوسری جگہوں پر منتقل کر دیا تھا۔ جس کا ذکر اقوامِ متحدہ کی اس رپورٹ میں بھی موجود ہے۔
شدت پسندی کے موضوع پر تحقیق کرنے والے سوئیڈن میں مقیم محقق عبدالسید کہتے ہیں کہ پاکستان میں ٹی ٹی پی کے بڑھتے ہوئے حملے کالعدم تنظیم کے موجودہ سربراہ مفتی نور ولی محسود کی ان پالیسیوں کا تسلسل ہے جو انہوں نے جولائی 2018 میں تنظیم کے امیر بننے کے فوری بعد مرتب کی تھیں۔
SEE ALSO: ژوب کینٹ حملے میں چار سیکیورٹی اہلکاروں کی ہلاکت، کب کیا ہوا؟وائس اف امریکہ سے بات کرتے ہوئے عبدالسید نے کہا کہ نور ولی محسود نے افغان طالبان کی طرز پر ایک جامع اور واضح پالیسی بنائی ہے جس سے ان پاکستانی عسکریت پسندوں کا تحریک پر اعتماد بڑھ گیا ہےجو ماضی میں ان کی پالیسیوں کی وجہ سے تنظیم سے علیحدہ ہوگئے تھے۔
ان کے خیال میں افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں واپس آنے کے بعد پاکستانی جنگجوؤں کو بھی اپنے ملک میں افغان طالبان طرز کے مذہبی نظام کے نفاذ کے لیے امیدیں پیدا ہو گئی ہیں۔ اس طرح وہ سینکڑوں پاکستانی جنگجوں جو برسوں سے افغان طالبان کے شانہ بشانہ امریکی واتحادی افواج کے خلاف لڑ رہے تھے، انہیں غیر ملکی ہونے کی وجہ سے افغان طالبان کے حکومتی نظام میں جگہ ملنا ممکن نہیں تھا اس لیے وہ سب ٹی ٹی پی میں واپسی کر کے کارروائیوں میں حصہ لے رہے ہیں۔
عبدالسید کے بقول امریکی افواج کے افغانستان سے انخلا کے بعد جو جدید اسلحہ عام عوام اور جنگجوؤں کے ہاتھ لگا اس میں بھی تحریک طالبان ایک بڑا حصہ حاصل کر چکی ہے۔ اس جدید اسلحہ میں بھاری ہتھیار نائٹ ویژن تھرمل ٹیکنالوجی اور لیز ہتھیار شامل ہیں۔ ان جدید ہتھیاروں کی نشاندہی خیبر پختونخوا کی پولیس اور حال ہی میں فوجی قیادت نے بھی کی ہے۔