سابق جاپانی وزیرِ اعظم کی آخری رسومات ادا، کروڑوں کے اخراجات پر بعض حلقوں کی تنقید

جاپان کے سابق وزیرِ اعظم شنزو آبے کی آخری رسومات سرکاری اعزاز کے ساتھ ادا کردی گئی ہیں جن پر اندازاً 11.8 ملین ڈالر سے زائد اخراجات کیے گئے ہیں۔

جاپان میں آخری رسومات پر آنے والے اخراجات اور شنزو آبے کی شخصیت سے متعلق پائی جانی والی مختلف آرا کی وجہ سے سرکاری سطح پر ان کی آخری رسومات پر جاپان میں رائے عامہ تقسیم رہی اور مبصرین کے مطابق موجودہ وزیرِ اعظم فومیو کیشیدا کو اس کے سیاسی نتائج کا سامنا کرنا ہوگا۔

سابق وزیرِ اعظم شنزو آبے کو انتخابی مہم کے دوران رواں برس آٹھ جولائی کو ایک شخص نے گولی مار کر ہلاک کردیا تھا۔ جاپان کی پولیس کے مطابق شنزو آبے کے قتل کے الزام میں گرفتار شخص سمجھتا تھا کہ سابق جاپانی وزیرِاعظم ’یونی فکیشن چرچ‘ نامی جس مذہبی گروپ سے تعلق رکھتے تھے۔ ملزم سمجھتا تھا کہ اس گروپ کو دیے گئے عطیات اس کی والدہ کی مالی بربادی کا باعث بنے تھے۔

یونی فکیشن چرچ پر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے ماننے والوں کا برین واش کرکے بھاری رقوم عطیات میں وصول کرتے ہیں۔

منگل کو شنزو آبے کی آخری رسومات سرکاری اعزازات کے ساتھ ادا کردی گئی ہیں۔اس تقریب میں امریکہ کی نائب صدر کاملا ہیرس ، جاپان کے ولی عہد شہزادہ اکیشینو سمیت دیگر ملکی اور بین الاقوامی شخصیات نے شرکت کی۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم جاپان فومیو کیشیدا نے سابق وزیر اعظم آبے کی جاپان کے لیے خدمات کا ذکر کیا۔

ٹوکیو میں اس تقریب کے لیے سخت سیکیورٹی اقدامات کیے گئے تھے۔ جب کہ شہر میں سینکڑوں افراد نے سرکاری سطح پر آخری رسومات کے خلاف پُر امن احتجاجی مظاہرہ بھی کیا۔

جاپان کے سابق وزیرِ اعظم کی آخری رسومات ادا کردی گئیں۔

سرکاری اعزاز کے ساتھ آخری رسومات

جاپان میں بادشاہ ملک کے لیے غیر معمولی خدمات انجام دینے والوں کی آخری رسومات سرکاری اعزاز کے ساتھ ادا کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔

دوسری عالمی جنگ سے قبل جاپان میں بادشاہ کو دیوتاؤں جیسی حیثیت حاصل تھی۔ اس لیے ان کے اعلان پر اگر کسی کی آخری رسومات سرکاری اعزاز کے ساتھ ہونے کا اعلان کیا جاتا تو اس کا سوگ منانا تمام شہریوں پر لازم ہوتا تھا۔

اس دور میں زیادہ تر شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والوں کی آخری رسومات ریاستی سطح پر ادا کی جاتی تھیں۔ اس کے علاوہ بعض سیاسی رہنماؤں اور عسکری عہدے داران کی آخری رسومات سرکاری اعزاز کے ساتھ ادا کی گئیں۔

لیکن دوسری عالمی جنگ کے بعد سرکاری اعزاز کے ساتھ آخری رسومات کا سلسلہ ختم ہوگیا۔ اس کے بعد جاپان میں صرف 1967 میں شگرو یوشیدا کی آخری رسومات سرکاری سطح پر منائی گئی تھیں۔ یوشیدا نے سان فرانسسکو معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کے نتیجے میں جاپان سے امریکہ کا قبضہ ختم ہوا تھا۔

یوشیدا کی آخری رسومات کے لیے کوئی قانونی بنیاد موجود نہیں تھی اس لیے بعد کی حکومتوں نے ایسی تقریبات سے گریز کیا۔

خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق جاپان میں بعض حلقے ریاستی سطح پر آخری رسومات کی ادائیگی کو جمہوریت کے منافی بھی قرار دیتے ہیں۔

آبے کے لیے سرکاری اعزاز کیوں؟

ماضی کی روایت کے برخلاف وزیرِ اعظم کیشیدا نے اپنے سابق ہم منصب آبے کے لیے سرکاری اعزاز کے ساتھ آخری رسومات ادا کرنے کا اعلان کیا تھا۔ انہوں نے اس اعلان کا یہ جواز دیا تھا کہ آبے جاپان کی جدید سیاسی تاریخ میں اس کے سفارتی، سیکیورٹی اور معاشی میدان میں سب سے زیادہ خدمات انجام دینے والے رہنما تھے اور ان کی خدمات سے عالمی سطح پر جاپان کی نمایاں شناخت قائم ہوئی۔

امریکہ کی نائب صدر کاملا ہیرس نے بھی سابق وزیرِ اعظم آبے کی آخری رسومات میں شرکت کی۔

کیشیدا کا کہنا تھا کہ انتخابی مہم کے دوران آبے کے قتل کے جواب میں جاپان کو جمہوریت کے لیے اپنے عزم کا اظہار کرنا چاہیے اور جمہوریت کے خلاف تشدد‘ کے آگے جھکنے سے انکار کرنا چاہیے۔

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ آبے کے لیے سرکاری سطح پر آخری رسومات کا اعلان بنیادی طور پر وزیرِ اعظم کیشیدا کی حکمران جماعت لبرل ڈیموکریٹک پارٹی (ایل ڈی پی) کے قانون سازوں کو خوش کرنے کی کوشش ہے۔ یہ ارکان آبے کے قدامت پسند سیاسی گروپ سے تعلق رکھتے ہیں۔ کیشیدا یہ اعلان کرکے اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔

ٹوکیو کی صوفیہ یونیورسٹی میں بین الاقوامی سیاسیات کے ماہر کوئچی نکانو کا کہنا ہے کہ سرکاری سطح پر آخری رسومات بنیادی طور پر آبے کی سیاسی وراثت اور ’یونی فکیشن چرچ‘ سے جڑے اسکیںڈل کو چھپانے کی کوشش ہے۔ چرچ پر خلافِ ضابطہ بھرتیوں اور کاروباری مفادات سے متعلق الزامات عائد کیے جاتے ہیں۔ یونی فکیشن چرچ ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔

سابق وزیرِ اعظم شنزو آبے کی سرکاری سطح پر آخری رسومات منانے کے مخالفین کا مؤقف ہے کہ اس اقدام کی کوئی قانونی بنیاد نہیں اور یہ وزیرِاعظم کیشیدا کی کابینہ کا یک طرفہ فیصلہ ہے۔

آبے کے ناقدین انہیں جاپان کی عسکری قوت بڑھانے اور دوسری عالمی جنگ کے دوران جاپان کے مظالم کی پردہ پوشی کرنے کی کوششوں کی وجہ سے انہیں تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ناقدین سابق وزیرِ اعظم آبے پر یہ الزام بھی عائد کرتے ہیں کہ انہوں مطلق العنانیت اور اقربا پروری کو فروغ دیا۔

آخری رسومات کے خلاف احتجاج میں اس وقت مزید شدت آئی جب سابق وزیرِ اعظم آبے، ان کی پارٹی ایل ڈی پی کے ارکانِ پارلیمنٹ اور یونی فکیشن چرچ کے درمیان روابط کی مزید تفصیلات سامنے آئیں۔ مختلف اطلاعات کے مطابق جنوبی کوریا میں قائم یونی فکیشن چرچ کے ایل ڈی پی کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔

احتجاج کرنے والوں کا کہنا ہے کہ سرکاری سطح پر آخری رسومات پر خرچ ہونے والا سرمایہ ملک میں معاشی توازن کے لیے استعمال ہونا چاہیے تھا۔

مبینہ طور پر شنزو آبے کے قتل کے پسِ پردہ محرکات میں چرچ سے آبے اور ان کی پارٹی کے تعلقات کے خلاف ردِ عمل شامل ہے۔

آبے کے دادا نے یونی فکیشن چرچ کو جاپان میں قدم جمانے میں مدد فراہم کی تھی۔ آبے کی سرکاری سطح پر آخری رسومات کو ان کی پارٹی کے چرچ سے تعلقات کی توثیق کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔

وکلا کے ایک گروپ نے سابق وزیرِ اعظم آبے کی سرکاری سطح پر آخری رسومات روکنے کے لیے عدالت میں ایک درخواست بھی دائر کی تھی جو بعدازاں مسترد کردی گئی۔ اس کے علاوہ ایک عمررسیدہ شخص نے اس فیصلے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے جاپان کے وزیرِ اعظم آفس کے قریب خود سوزی بھی کرلی تھی۔

آخری رسومات پر آنے والے اخراجات

خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کے مطابق جاپان کی حکومت کا کہنا تھا کہ سابق وزیرِ اعظم شنزو آبے کی آخری رسومات کے انتظامات، سیکیورٹی، ٹرانسپورٹ، مہمانوں کے قیام وغیرہ پر 11.8 ملین ڈالر سے زیادہ اخراجات ہوئے۔

اس تقریب کی مخالفت کرنے والوں کا موقف تھا کہ ٹیکس سے حاصل ہونے والی اس سرمائے کو ملک میں معاشی عدم توازن ختم کرنے جیسے مصارف پر خرچ ہونی چاہیے جو سابق وزیرِ اعظم شنزو آبے کی پالیسیوں کا نتیجہ تھا۔

موجودہ وزیرِ اعظم کو کن نتائج کا سامنا ہوگا؟

جاپان کے موجودہ وزیرِ اعظم نے ایک سال قبل مستحکم سیاسی حمایت کے ساتھ یہ عہدہ سنبھالا تھا۔ تاہم شنزو آبے کی سرکاری سطح پر آخری رسومات کی ادائیگی کے اعلان کے بعد ان کی مقبولیت میں تیزی سے کمی آئی ہے۔

ایک سروے کے مطابق ان کی جماعت کے نصف سے زائد قانون ساز یونی فکیشن چرچ سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ معلومات سامنے آنے کے بعد جاپان میں اس بات کی مزید وضاحت پر عوامی اصرار بڑھ رہا ہے کہ چرچ حکومتی پارٹی کی پالیسیوں پر کتنا اثر انداز ہوتا ہے۔

اس تحریر کے لیے معلومات خبر رساں اداروں ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ اور ’رائٹرز‘ سے لی گئی ہیں۔