فیس بک کمپنی کی بےقاعدگیوں کے بارے میں دفتری دستاویزات افشا کرنے والی کارکن فرانسس ہوگن ادارے میں بیتے دنوں کی یاد داشتوں کو اب کتاب کی شکل دیں گی۔
فرانسس ہوگن نے کچھ ماہ قبل فیس بک کمپنی کی ہزاروں کی تعداد میں اندرونی دستاویزات افشا کی تھیں۔ ستمبر میں عوام کے سامنے آنے والی ان دستاویزات میں موجود معلومات نے ایک طوفان کھڑا کر دیا تھا اور اس سلسلے میں وہ امریکی کانگریس کی سینیٹ کمیٹی کے سامنے بھی پیش ہوئی تھیں، جس میں انہوں نے فیس بک کمپنی پر یہ الزام عائد کیا کہ فیس بک نے عوام کے تحفظ پر مالی فوائد کو فوقیت دی۔
ان الزامات کے ثبوت میں پیش کی گئیں دستاویزات سے یہ ظاہر ہے کہ کمپنی کی تحقیق یہ بتاتی ہے کہ کس طرح کمپنی کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نوجوان نسل پر منفی طور پر اثرانداز ہو رہے ہیں۔ کمپنی نے اس سے بخوبی آگاہ ہونے کے باوجود اس کی روک تھام کے لئے خاطر خواہ اقدام نہیں کرنے میں دلچسپی نہیں لی۔
SEE ALSO: افشا دستاویزات کا سلسلہ جاری، فیس بک مشکل میںان دستاویزات میں یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ کئی ممالک میں حکومت کی جانب سے سروس بند کئے جانے کے خدشے کے پیش نظر فیس بک نے ان ممالک میں شہریوں کی رائے کی آزادی کو دبایا۔ بھارت جیسے ملک میں اس کے پلیٹ فارمز کے ذریعے انتہا پسندی پھیلنے کے بارے میں معلومات ہونے کے باوجود اسے نظر انداز کرنے اور مختلف زبانوں میں پلیٹ فارمز کی نفرت انگیز اور تشدد کو ہوا دینے والے مواد کی نگرانی کے لئے ناکافی اقدامات کرنے جیسی دستاویزات بھی سامنے آئیں۔ نگرانی میں کمی کی وجہ سے ایسے بھی مواقع آئے جب فیس بک جھوٹی خبروں اور افواہوں کو روکنے کے بجائے ان کے وائرل ہونے کا باعث بنا۔
جمعرات کو امریکی اشاعتی ادارے 'لٹل، براؤن اینڈ کمپنی' نے اعلان کیا ہے کہ فرانسس ہوگن ادارے کے لئے فیس بک میں گزارے اپنے دنوں کی یاد داشت تحریر کریں گی جس میں کمپنی کے کام کرنے کے طریقہء کار کا تنقیدی جائزہ لیا جائے گا۔
کتاب کب شائع ہوگی اور اس کا نام کیا ہوگا اس کا فیصلہ ابھی نہیں ہوا اور اس کتاب کے عوض فرانسس ہوگن کو کتنی رقم دی جا رہی ہے اس بارے میں بھی معلومات فی الحال دستیاب نہیں ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس موقعے پر جاری اپنے تحریری بیان میں فرانسس ہوگن کا کہنا تھا کہ فیس بک کمپنی میں گزارے وقت میں انہیں یہ احساس ہوا کہ ادارے سے باہر کسی کو بھی یہ نہیں پتہ کہ ادارے کے اندر کیا چل رہا ہے، ادارے نے عوام کو اس بارے میں مکمل تاریکی میں رکھا ہوا ہے۔
فرانسس ہوگن کا مزید کہنا تھا کہ ادارے نے نگرانی اور شفافیت کے معاملے پر اپنے دروازے بند رکھے ہوئے ہیں اور عوام کو تعلقات عامہ کی چمک دمک سے دھوکہ دیا ہوا ہے۔ ان کے بقول، وہ اس لئے سامنے آئیں کیونکہ ان کے نزدیک سچ جاننا ہر انسان کا بنیادی حق ہے اور سچ یہ ہے کہ فیس بک آسمان سے چھوتے منافعوں کی خاطر ہم انسانوں کی زندگی قربان کر رہا ہے۔ ایسا ہونے سے روکا جانا ممکن ہے، ایسا بالکل ممکن ہے کہ ہم اپنے پسندیدہ عوامی رابطوں کے پلیٹ فارمز کو محفوظ رہتے ہوئے استعمال کر سکیں اور اس کتاب کے ذریعے میں یہی راستہ دکھانا چاہتی ہوں۔
فیس بک جس کا نام اسی اسکینڈل کے دوران تبدیل کرکے میٹا رکھ دیا گیا اس کے سربراہ مارک زکربرگ نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے اسے کمپنی کی غلط تصویر کشی قرار دیا۔
امریکی ریاست آئیووا سے تعلق رکھنے والی فرانسس ہوگن ریاستی یونیورسٹی سے الیکٹرکل اور کمپیوٹر انجینئرنگ اور ہارورڈ سے ماسٹرز کی ڈگری رکھتی ہیں۔ وہ گزشتہ سترہ سال سے مختلف ٹیکنالوجی کمپنیز میں بطور ڈیٹا ایکسپرٹ کام کرتی رہی ہیں اور 2019 میں فیس بک سے وابستہ ہوئیں۔
ہوگن فیس بک کے عوامی دیانتداری کے یونٹ سے وابستہ تھیں جسے ان کے مطابق نومبر 2020 کے امریکی انتخابات کے بعد ختم کر دیا گیا۔ تاہم، فیس بک کا کہنا ہے کہ یونٹ ختم نہیں کیا گیا مگر اسے ایک اور یونٹ میں ضم کر دیا گیا۔
ہوگن نے بتایا کہ اس اقدام سے انہیں اندازہ ہو گیا کہ فیس بک پر پلیٹ فارمز کو صارفین کے لئے محفوظ بنانے کے معاملے پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا، اس لئے انہوں نے ادارہ چھوڑ دیا مگر جانے سے پہلے وہ ہزاروں کی تعداد میں ان دستاویزی ثبوتوں کو اکٹھا کرکے لے جانا نہیں بھولیں۔
(خبر کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے۔)