|
اسلام آباد__طالبان حکومت نے روسی قیادت کے حالیہ بیان کا خیرمقدم کرتے ہوئے دونوں ممالک کے درمیان مثبت تعلقات کے فروغ پر زور دیا ہے۔
طالبان حکومت کی وزرات خارجہ کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں واضح کیا گیا ہے کہ وہ روس کے ساتھ ’’باہمی احترام اور مشترکہ مفادات کی بنیاد پر مثبت تعلقات کو مزید فروغ دینے اور مضبوط کرنے کا سنجیدہ سیاسی عزم‘‘ رکھتی ہے۔
گزشتہ دنوں روس کی جانب سے طالبان حکومت کو دہشت گرد تنظیمیوں کی فہرست سے ہٹانے کے حوالے سے خبریں منظرِ عام پر آئی ہیں۔
اگست 2021 میں اقتدار حاصل کرنے کے بعد سے طالبان کے ساتھ روس نے نہ صرف سفارتی بلکہ تجارتی تعلقات میں بھی کافی پیش رفت کی ہے۔
روس کی سرکاری خبررساں ایجنسی ’ریانووستی‘ نے وزیرخارجہ سرگئی لاوروف کے حوالے سے بتایا کہ جس طرح قزاقستان نے طالبان حکومت کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے نکال دیا تھا روس بھی ایسا ہی فیصلہ کرنے جا رہا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ روس کی جانب سے افغانستان کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کے اشارے بھی مل رہے ہیں اور ایسا ہوتا ہے تو یہ اقدام دور رس نتائج مرتب کرے گا۔
SEE ALSO: روس افغان طالبان کو دہشت گرد گروپ کی اپنی فہرست سے ہٹا سکتا ہے: سفارت کارطالبان کی کوششیں
افغان امور کے ماہر اور سینئر تجزیہ کارسمیع یوسفزئی کا کہنا ہے کہ اس وقت طالبان حکومت عالمی سطح پر تسلیم کیے جانے کے لیے مسلسل کوششوں میں ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انھوں نے مزید بتایا کہ طالبان ایسی کسی پیش رفت کو عالمی سطح پر بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی کوشش ضرور کریں گے اور دوسرے ممالک پر بھی زور دیں گے کہ وہ بھی انھیں تسلیم کرنے کے لیے سامنے آئیں۔
افغان امور کے ماہر کا یہ بھی کہنا تھا کہ گزشتہ تین برسوں میں چین اور روس نے مل کر افغان عوام اور طالبان حکومت کی جتنی مدد کی ہے وہ ایک ماہ کی امریکی امداد کے بھی برابر نہیں ہے۔
یاد رہے کہ روس نے طالبان کو 2003 میں باضابطہ طور پر اس وقت دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا جب وہ افغانستان میں امریکہ اور اتحادی افواج کے خلاف مہلک شورش میں مصروف تھے۔
افغانستان کے لیے روس کے خصوصی صدارتی ایلچی ضمیر کبولوف نے پیر کو سرکاری خبررساں ایجنسی تاس کو بتایا کہ طالبان حکومت کو دہشت گردوں کی فہرست سے ہٹانے کے بعد ماسکو طالبان حکومت کو تسلیم کرنے سے متعلق فیصلہ کرپائے گا۔
عالمی سطح پر تاحال کسی ایک ملک نے بھی طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔
SEE ALSO: کیا افغانستان امریکہ کی ترجیح نہیں رہا؟’داعش مشترکہ خطرہ‘
امریکہ، چین اور روس سمیت تمام بڑی طاقتوں اور علاقائی ممالک جیسے پاکستان، ایران اور دیگر اس بات پر متفق ہیں کہ طالبان حکومت کو اپنی حکومت کو تسلیم کرنے سے پہلے کچھ شرائط پوری کرنا ہوں گی۔
ان شرائط میں وسیع البنیاد حکومت کا قیام، خواتین اور انسانی حقوق کا احترام اور افغان سرزمین کو دوبارہ سے دہشت گرد گروہوں کے استعمال کی اجازت نہ دینا شامل ہیں۔
سابق صدر ڈاکٹر اشرف غنی کے دور میں افغانستان کی جانب سے ایران میں بطور سفیر تعینات غفور لیوال کا کہنا ہے کہ روس اور ایران ایک عرصہ سے طالبان کے ساتھ دوستی کے خواہاں تھے اور گزشتہ 20 سالوں میں روس، چین اور ایران کی طالبان کے ساتھ ہم آہنگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔
انھوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان دوحہ مزاکرات سے قبل بھی طالبان روس اور چین کے تواتر سے دورے کرتے تھے۔
ان کے بقول افغانستان میں طالبان حکومت کے وجود میں آنے کے بعد خطے کے تمام ممالک کو اپنی سیکیورٹی اور سلامتی کے حوالے سے کافی خدشات ہیں۔ ان میں ایک طرح کا خوف بھی پایا جاتا ہے۔
غفور لیوال کے مطابق ایک ایسے وقت میں جب روس کو یوکرین میں شدید مزاحمت کا سامنا ہے وہ قطعاً نہیں چاہیں گے کہ ان کی جنوبی سرحدیں بھی غیر محفوظ ہو جائیں۔ اس لیے روس چاہتا ہے کہ افغانستان کے ساتھ دوستی کی صورت میں اثرورسوخ قائم کیا جائے۔
SEE ALSO: داعش۔خراسان: ماسکو میں حملہ کرنے والوں کی تعریف، طالبان پر تنقیدان کے مطابق دوسرا خطرہ روس کو داعش کی صورت میں ہے۔ اس وقت داعش کے جنگ جو عملی طور پر افغانستان میں روپوش ہیں اور وقتاً فوقتاً حملہ آور ہوتے ہیں۔ روس سمجھتا ہے کہ اگر داعش اس کے خلاف کوئی اقدام کرتی ہے تو طالبان بہتر طریقے سے ان کا قلع قمع کر سکتے ہیں۔
انھوں نے واضح کیا کہ ایسا بھی نہیں ہے کہ روس طالبان کے ساتھ مستقل سیاسی روابط قائم کرنا چاہتا ہے بلکہ وہ تمام خطرات جو کہ اسے داعش کی صورت میں درپیش ہو سکتے ہیں انھیں کم کرنے یا پھر نمٹنے کے لیے وہ طالبان حکومت کے ساتھ مثبت روابط استوار کر رہا ہے۔
ان کے بقول یہ مفادات کی جنگ ہے اور اس وقت داعش کو کنٹرول کرنے کے لیے روس کو طالبان بہترین اتحادی نظر آتے ہیں۔
سابق سفارتکار کے مطابق اس خطے میں روس کا اصل ہدف داعش ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ جب شام اور عراق میں داعش نے سر اٹھایا تو روس نے اسی وقت یہ خطرہ بھانپ لیا تھا کہ داعش کی ان کارروائیوں کا محور صرف شام اور عراق یا مشرق وسطیٰ تک محدود نہیں رہ سکتا اور مستقبل میں روس بھی اس کی لپیٹ میں آ سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روس نے شام میں اڈہ بنا کر داعش کا خاتمہ کیا۔
’روس سے بہتر افغانستان کو کوئی نہیں جانتا‘
سینئر تجزیہ کار داؤد خٹک کا کہنا ہے کہ اگر روس مستقبل قریب میں طالبان کی حکومت کو تسلیم کرتا ہے تو اس سے طالبان کی کافی حوصلہ افزائی ہوسکتی ہے۔ اور اسے اپنے ہمسائے میں روس جیسے سپر پاور کی تائید مل جائے گی۔
جب روس نے 1980 کی دہائی میں افغانستان پر حملہ کیا تھا تو امریکہ، پاکستان اور اس کے اتحادیوں نے مل کر روس کے خلاف طویل جنگ لڑی جس کے بعد اسے پسپائی اختیار کرنی پڑی۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے داوؤد خٹک کا کہنا تھا کہ اس خطے میں افغانستان کے حوالے سے جتنی معلومات روس رکھتا ہے شائد ہی کسی دوسرے ملک کو ان تمام معلومات تک رسائی حاصل ہو۔
SEE ALSO: روس، چین اور ایران کا طالبان سے تعاون ایک حد تک ہی ہو سکتا ہے: تجزیہ کاران کے بقول کمیونزم کے دور میں روس کے افغانستان میں قائم ہونے والی نورمحمد ترکئی، حفیظ اللہ امین اور ببرک کارمل کی حکومتوں سے اچھے تعلقات رہے۔ مجاہدین کے دور میں روس اور افغانستان میں دوریاں پیدا ہوئیں تاہم نائن الیون کے بعد سے روس کے طالبان کے ساتھ ہمیشہ اچھے تعلقات رہے ہیں۔
ان کے مطابق اگرچہ بعض بین الاقوامی حالات کی بنا پر روس نے بھی 2003 میں طالبان کو دہشت گرد گروہ کی فہرست میں شامل کیا تھا تاہم دونوں کے تعلقات ہمیشہ مثبت سمت میں آگے بڑھتے رہے۔
داؤد خٹک کا مزید کہنا تھا کہ یہی وجہ ہے جب طالبان نے کابل کا اقتدار دوبارہ حاصل کیا تو دونوں نے وفود کا تبادلہ کیا اور اب جون میں ہونے والی اقتصادی کانفرنس میں روس نے خاص طور پر طالبان حکومت کے نمائندوں کو مدعو کیا ہے۔ جو ان کے بقول دونوں ممالک کے درمیان دوستی کے ایک نئے باب کا آغاز ہوسکتا ہے۔