ایسے میں جب کہ سیلاب کی وجہ سے پاکستان کے زراعت کے شعبے کو شدید نقصان پہنچا ہے، اسلام آباد میں ہزاروں کی تعداد میں کسان اپنے مطالبات منوانے کے لیے مظاہرہ کر رہے ہیں۔
مظاہرین گزشتہ شام کو سینکڑوں کاروں اور بسوں کے ذریعے اسلام آباد کے مرکزی علاقے بلیو ائریا پہنچے جہاں مظاہرین کے آنے کا سلسلہ دن بھر جاری ہے۔
کسان اتحاد کے مطابق شرکا کی تعداد 25 ہزار کے لگ بھگ ہے۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ وہ اپنے مطالبات، جن میں ٹیوب ویل کے لیے استعمال ہونے والی بجلی کی فی یونٹ قیمت کم کر کے دوبارہ پرانی قیمت یعنی 5.3 روپے فی یونٹ پر لانے اور گنے اور کپاس کی فصل کی حکومت کو بہتر قیمتوں پر فروخت کو یقینی بنانا چاہتے ہیں۔
کسان اتحاد کے چئیرمین خالد باٹھ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ بجلی کے بل لاکھوں میں آ رہے ہیں جب کہ گندم کی آدھی فصل پہلے ہی سیلاب کی نذر ہو چکی ہے۔ کسان ان حالات میں کیسے گندم کی کاشت کا کام دوبارہ شروع کر سکتے ہیں۔ خاص کر پنجاب اور سندھ کے ایسے علاقوں میں جہاں مشکل سے سیلابی پانی اترا ہے اور علاقے تباہ حالی کا شکار ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے مطالبات کی منظوری تک نہ صرف اپنا احتجاج جاری رکھیں گے بلکہ اگلے مرحلے میں ریڈ زون کو عبور کرتے ہوئے وزیر اعظم ہاؤس جانے کی کوشش کریں گے۔ دوسری طرف اسلام آباد انتظامیہ کے جارہ کردہ بیان کے مطابق کسی کو بھی ریڈ زون پار کرنے نہیں دیا جائے گا اور بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بہت سے مظاہرین ڈنڈا بردار ہیں اور دفعہ 144 کے نفاذ کی وجہ سے اسلام آباد میں کسی بھی اجتماع کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ جب کہ کسی ممکنہ لا اینڈ آرڈر کی صورت حال سے نمٹنے کے لیے اسلام آباد کے تمام داخلی راستے اور مرکزی شاہراہیں کنٹینر لگا کر بند کر دی گئی تھیں اور شہری متبادل راستے استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔
وہاڑی سے تعلق رکھنے والے کسان عبداللہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ بجلی کی زیادہ قیمتیں ہی ایک مسئلہ نہیں، جس کے لیے وہ لوگ اتنی دور سے اسلام آباد آئے ہیں، بلکہ ان کو گندم، گنے اور کپاس کی فصل کی حکومت کو فروخت پر مناسب سبسڈی دی جائے۔
اٹھارویں ترمیم کے بعد سے سبسڈی دینے یا نہ دینے کا معاملہ صوبوں کا اختیار ہے جس پر وفاق کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ جب کسان اتحاد کے ممبران 21 ستمبر کو انہی مطالبات کو لے کر پہلے اسلام آباد آئے تھے تو وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے یہ معاملہ متعلقہ محکموں تک پہنچانے کا اعلان کیا تھا۔ البتہ، کسانوں کا کہنا ہے کہ انہیں یہ بھی یقین دلایا گیا تھا کہ ان کے مطالبات نہ صرف پورے کیے جائیں گے بلکہ 29 ستمبر کو ان کے وفد کی ملاقات وزیراعظم شہباز شریف سے کروائی جائے گی، لیکن ایسا نہیں ہوا۔
SEE ALSO: کیا سیلابی ریلوں کا رُخ کم پانی والے دریاؤں کی جانب موڑ کر تباہی سے بچا جاسکتا تھا؟پاک پتن سے آئے کسان محمد زبیر کا کہنا تھا کہ وہ اسلام آباد کی ضلعی حکومت کی جانب سے احتجاج کے لیے مختص ایف نائن پارک نہیں جائیں گے کیونکہ مظاہرین کا مقصد حکومت کی توجہ اپنے سنجیدہ مسائل کی طرف مبذول کروانا ہے نہ کہ اسلام آباد میں خاموشی سے بیٹھنا۔ ان کے ساتھ آئے ایک کسان عبداللہ کا کہنا تھا کہ وہ اپنے ساتھ کھانے پینے کا سامان لے کر آئے ہیں، اس لیے انہیں چاہے جتنا بھی انتظار کرنا پڑے وہ مطالبات کی منظوری کے بغیر واپس نہیں جائیں گے۔
کسان اتحاد کے مطالبات میں یہ بھی شامل ہے کہ ٹیوب ویلز کے بل کو تمام اضافی ٹیکسوں سے مستثنیٰ قرار دیا جائے جب کہ کھاد کی بلیک مارکٹنگ پر مکمل پابندی لگائی جائے کیونکہ کسانوں کے لیے کھاد خریدنا لازمی ہے لیکن وہ دوگنی اور چوگنی قیمت ادا کر کے کھاد نہیں خرید سکتے۔
محمد زبیر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ گندم کی کاشت کو یقینی بنانے کے لیے بجلی کے نئے نرخ فوری واپس لیے جائیں کیونکہ پنجاب اور خیبر پختونخواہ کے علاقوں میں رہنے والے کسان بلوں کی ادائیگی کے لیے اپنے گھروں کا سامان اور جانور بیچنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔
مظاہرے کے شرکا کا کہنا تھا کہ وہ ضلعی انتظامیہ سے کسی قسم کے مذاکرات کر کے واپس اپنے علاقوں کو نہیں جا سکتے کیونکہ ان کا مسئلہ قومی نوعیت کا ہے اور صرف وزیر اعظم اور متعلقہ وزارتیں ہی ان کے مسائل کا حل تجویز کر سکتے ہیں۔
گندم اور چاول کی فصل بڑے پیمانے پر سیلاب سے پہلے ہی متاثر ہو چکی ہے جب کہ ماہرین معیشت بھی خوراک کی قلت کے خدشے کا اظہار کر چکے ہیں۔ ایسے میں ماہرین کسانوں کے احتجاج کو حکومت کے لیے قابل تشویش قرار دے رہے ہیں۔