عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کا کہنا ہے کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی جانب سے پاکستان کو بلیک لسٹ کیے جانے کا خدشہ اب بھی موجود ہے۔
مالیاتی ادارے کی جانب سے جائزہ اجلاس کی رپورٹ جاری کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کی طرف سے فروری تک دی گئی ڈیڈلائن کے مطابق اب تک بہت سے اقدامات نہیں کیے۔
رپورٹ کے مطابق پروگرام کے مقاصد میں ناکامی کی صورت میں بیرونی سرمایہ کاری متاثر ہو گی۔ پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی بلیک لسٹنگ سے بچنے کے لیے کوشش کرنا ہو گی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے پاکستان کی حکومت نے بجلی اور گیس مزید مہنگی کرنے کی یقین دہانی کرا دی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے بجلی گھروں کی نجکاری سے گردشی قرضے ادا کرنے اور مزید 200 ارب روپے کی بینک گارنٹی جاری کرنے کی بھی حامی بھر لی ہے۔
آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ گردشی قرضوں کو حکومتی قرضے میں شامل کرنے پر بھی اتفاق ہوا ہے۔
پاکستان میں آئی ایم ایف مشن کی سربراہ رمریز ریگو کہتی ہیں کہ پاکستان کو پروگرام میں رہتے ہوئے ٹیکس بڑھانے کے لیے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے بجٹ میں تبدیلیوں کے ساتھ گیس و بجلی کی قیمتوں میں اضافے، نادہندگان کے بجلی کنکشنز منقطع کرنے اور آمدنی بڑھانے کے لیے نیشنل ٹیکس اتھارٹی قائم کرنے کی بھی یقین دہانی کرائی ہے۔
رپورٹ کے مطابق ستمبر تک نیم خود مختار نیشنل ٹیکس اتھارٹی کا قیام اور نقصان میں چلنے والے سرکاری اداروں کو کمپنیاں بنایا جائے گا۔
تجزیہ کار فرخ سلیم کہتے ہیں کہ پاکستان نے بہت سے شعبوں میں کامیابی حاصل کی ہے لیکن افراطِ زر میں کمی کے دعوؤں کے باوجود خوراک کے افراط زر میں اضافہ ہوا، جو ملک کے لیے خطرناک ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مشیر خزانہ کہتے ہیں کہ 88 لاکھ افراد غربت کی سطح سے نیچے گئے ہیں جبکہ 12 لاکھ افراد بے روزگار ہوئے ہیں۔ یہ دو اعشاریے پاکستانیوں کے لیے بہت اہم ہیں لیکن آئی ایم ایف کے کسی پروگرام میں یہ اعشاریے ظاہر نہیں ہوتے۔
فرخ سلیم کا کہنا ہے کہ "آئی ایم ایف والے آتے ہیں اور کون سے نئے ٹیکسز لگانے ہیں اس کا فیصلہ کر کے چلے جاتے ہیں۔ حالیہ رپورٹ میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں کمی اور ایکسچینج ریٹ کے حوالے سے جو بات کی گئی ہے وہ درست ہے۔ لیکن افراط زر کے حوالے سے جو کہا گیا ہے میں اس سے مطمئن نہیں۔ یوں لگتا ہے کہ خوراک کا افراط زر بڑھ رہا ہے۔"
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خالص پن بجلی منافع کے بقایا جات کی مد میں 73 ارب روپے اور لیٹ پے منٹ چارجز کی مد میں ایک سو دس ارب روپے وصول کیے جائیں گے۔
آئی ایم ایف مشن سربراہ رمریز ریگو کا کہنا ہے کہ پاکستان نے پروگرام میں رہتے ہوئے تمام معاشی اہداف حاصل کر لیے ہیں۔ آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان نے پہلی سہہ ماہی میں بیرونی شعبہ، زرمبادلہ کے ذخائر کے اہداف حاصل کیے۔ ایکسچینج ریٹ مستحکم ہونے کے باعث آئندہ مہنگائی کی شرح میں کمی ہو سکتی ہے۔
آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان کو توانائی کے شعبے میں گردشی قرضوں کا سامنا ہے۔ گردشی قرضے میں کمی کے لیے پاکستان منصوبے پر عمل درآمد کر رہا ہے۔
فرخ سلیم کہتے ہیں اب تک پاکستان نے آئی ایم ایف کے دیے گئے منصوبے پر عمل کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کا پروگرام جہاں پر بھی دنیا بھر میں ہوتا ہے وہاں بے روزگاری اور غربت کے بینچ مارک سیٹ نہیں کیے گئے۔ جس کی وجہ سے مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت ارجنٹائن میں آئی ایم ایف پرواگرامز کی وجہ سے جو مشکلات آئی ہیں ان کے بارے میں بھی پڑھنا چاہیے اور معاشی اعشاریوں میں بہتری کے ساتھ سماجی اعشاریے بھی بہتر ہونے چاہئیں۔
SEE ALSO: قومی بچت اسکمیوں میں سرمایہ کاری، کالعدم تنظیموں و وابستہ افراد کی نشاندہی کا فیصلہآئی ایم ایف رپورٹ کے مطابق پی آئی اے اور پاکستان اسٹیل کے لیے انٹرنیشنل آڈیٹرز کا انتخاب کرلیا گیا ہے۔ البتہ رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے مفاد پرست گروہوں کی جانب سے مزاحمت مالی استحکام کی اس حکمت عملی پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سینیٹ میں حکمراں جماعت تحریک انصاف کو اکثریت حاصل نہیں جس کے نتیجے میں پروگرام کے مقاصد حاصل کرنے کے لیے ضروری قانون سازی میں بھی رکاوٹ ہو سکتی ہے۔
تجزیہ کار فرخ سلیم کہتے ہیں کہ ایف اے ٹی ایف کے اپنے پیمانے ہیں۔ جس کی بنیاد پر ریٹنگ کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ آخری بار جو کانفرنس ہوئی اس میں پاکستان نے 51 پوائنٹس حاصل کیے تھے جن میں بہتری ہوئی ہے۔ لہذا موجودہ صورتِ حال میں بلیک لسٹنگ کا تو امکان نہیں البتہ پاکستان کو بدستور گرے لسٹ میں رکھا جاسکتا ہے۔