افغانستان:یونیورسٹی داخلہ امتحانات میں 3 سال سے طالبات غائب،سرعام کوڑوں کی سزائیں جاری

کابل میں خودکش بمبار کا نشانہ بننے والی 19 سالہ لڑکی کا سوگوارخاندان ہے۔ 30،ستمبر 2022. کوایک تعلیمی مرکز میں خودکش بمبار نے حملہ اس وقت کیا جب اندر سینکڑوں اسٹوڈنٹس یونیورسٹی کے لیے داخلے کا پریکٹس امتحان دے رہی تھیں۔ فوٹو اے پی

  • افغانستان میں یونیورسٹی کے داخلے کے امتحانات میں تیسرے سال بھی کوئی طالبہ موجود نہیں تھی۔
  • 8 جون کو افغان حکام کی جانب سے خواتین کی ثانوی تعلیم پر پابندی عائد کئے جانے کے ایک ہزار دن مکمل ہوگئے۔
  • ہیومن رائٹس واچ کی ڈائریکٹر ہیدر بار نے وی او اے کو بتایا، "افغانستان ان ایک ہزار دنوں سے کبھی بھی مکمل طور پربحال نہیں ہو پائے گا۔"
  • گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کی مذمت کے باوجود 14 خواتین سمیت 63 افراد کو سر پل میں کھیلوں کے میدان میں سرعام کوڑے مارے گئے۔


افغانستان میں طالبان محکمہ تعلیم کے حکام نے گزشتہ ہفتے ملک کے 34 صوبوں میں سے تقریباً نصف میں یونیورسٹی کے داخلے کے امتحانات کا آغاز کیا، جس میں مسلسل تیسرے سال بھی کوئی طالبہ موجود نہیں تھی۔

نیشنل ایگزامینیشن اتھارٹی نے، جو کئی مرحلوں پر مشتمل امتحان لیتی ہے، کہا ہے کہ وہ اس سال کم از کم 75 ہزار مرد امیدواروں کو سرکاری اور نجی یونیورسٹیوں میں داخلہ دینے کا ارادہ رکھتی ہے۔

تین سال قبل دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کے بعد سے، سخت گیر طالبان نے افغانستان میں 12 سال اور اس سے زیادہ عمر کی لڑکیوں کو چھٹی جماعت کے بعد اسکول جانے سے روک دیا ہے۔ یہ پابندی دسمبر 2022 میں یونیورسٹی کی طالبات پر اچانک عائد کر دی گئی، جس سے وہ اپنی اعلیٰ تعلیم مکمل کرنے سے محروم ہو گئیں۔

SEE ALSO: خواتین کےحقوق سلب کرنے کی طالبان کی ٹائم لائن

طالبان کی صرف مردوں پر مشتمل حکومت نے خواتین کی نقل و حرکت کی آزادی سمیت ان کےحقوق اور پر سخت پابندیاں عائد کر رکھی ہیں، ان میں سے بہت سوں کو سرکاری اور نجی ملازمتوں پر جانے سے منع کر دیا ہے۔

اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے گروپ مسلسل ان کی مذمت کر رہے ہیں اور انہوں نےطالبان سے افغان خواتین کی تعلیم اور کام تک رسائی پر پابندیاں ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے۔

8 جون کو افغان حکام کی جانب سے خواتین کی ثانوی تعلیم پر پابندی عائد کئے جانے ایک ہزار دن مکمل ہوگئے، جس سے ملک بھر میں 10 لاکھ سے زیادہ لڑکیاں متاثر ہوں گی۔

ہیومن رائٹس واچ میں خواتین کے حقوق کی ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر حیتھر بار نے ای میل کے ذریعے وی او اے کو بتایا، "افغانستان ان ایک ہزار دنوں سے کبھی بھی مکمل طور پربحال نہیں ہو پائے گا۔"

"اس دوران ہونے والے اس امکانی نقصان کو یعنی وہ فنکار، ڈاکٹر، شاعر اور انجینئر جو کبھی بھی اپنے ملک کو اپنی صلاحیتوں سے فائدہ نہیں پہنچا سکے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ ہر اضافی دن، ساتتھ مزید خواب دم توڑ رہے ہیں۔" حیتھر بار نے کہا۔

افغان خواتین طالبات کابل، دسمبر 2022میں کابل یونیورسٹی کے باہر کھڑی ہیں. طالبان سیکورٹی فورسز یونیورسٹی کیمپس تک رسائی کو روک دی ہےں۔

طالبان اپنی حکومت کی پالیسیوں کا دفاع افغان ثقافت اور اسلامی قانون کی پنی سخت خود ساختہ تشریح کے مطابق کرتے ہیں، اور وہ اصلاحات کے مطالبات کو ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے مسترد کرتے ہیں۔

اب تک کسی بھی بیرونی ملک نے طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا، جس کی وجہ بنیادی طور پر انسانی حقوق کے خدشات اور افغان خواتین کے ساتھ ان کا سخت سلوک ہے۔

SEE ALSO: افغانستان: دو عورتوں سمیت 27 افراد کو سرعام کوڑے مارنے کی سزائیں

جسمانی سزائیں

بنیاد پرست حکمرانوں نے اقوام متحدہ کو بھی نظر انداز کیا ہے۔ جو"اخلاقی جرائم" اور گھر سے بھاگنے جیسے جرائم کے مرتکب افغان مردوں اور عورتوں کو سرعام کوڑے مارنے سے روکنے کا مطالبہ کرتی ہے۔

اس طرح کی تازہ ترین سزائیں منگل کو اس وقت دی گئیں جب 14 خواتین سمیت 63 افراد کو شمالی افغان شہر سر پل میں کھیلوں کے میدان میں سرعام کوڑے مارے گئے۔

SEE ALSO: اقوامِ متحدہ کا افغان طالبان سے موت اور کوڑوں کی سرِ عام سزا ختم کرنے کا مطالبہ

اقوام متحدہ کےانسانی حقوق کے ترجمان جیریمی لارنس نے بدھ کو کہا کہ ملزمان کو سزا مکمل کرنے کے لیے جیل واپس جانے سے قبل مبینہ طور پر 15 سے 39 کے درمیان کوڑے مارے گئے۔

لارنس نے طالبان کو یاد دلایا کہ جسمانی سزائیں دینا، انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون کی "واضح خلاف ورزی" ہے۔

"ہم ایک بار پھر ڈی فیکٹو حکام پر زور دیتے ہیں کہ وہ فوری طور پر ہر قسم کی جسمانی سزا کو روک دیں۔ اس کے علاوہ، ہم ڈی فیکٹو حکام سے یہ مطالبہ بھی کرتے ہیں کہ وہ مناسب عمل اور منصفانہ ٹرائل کے حقوق کے مکمل احترام کو یقینی بنائیں، خاص طور پر ہر اس شخص کے لیے جو مجرمانہ الزامات کا سامنا کر رہے ہوں۔"

طالبان نے 2021 میں اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سے ملک بھر کے کھیلوں کے اسٹیڈیموں میں سیکڑوں مردوں اور عورتوں کو سرعام کوڑے مارے ہیں اور قتل کے جرم میں کم از کم پانچ افغانوں کو سرعام گولی مار کر موت کی سزا دی گئی ہے۔