میانمار: آنگ ساں سوچی کے مقدمے کا فیصلہ 30 دسمبر کو متوقع

میانمار میں ایک مظاہرے کے دوران آنگ ساں سوچی کی تصویر کے بینر اٹھا کر ان کی رہائی کا مطالبہ کررہے ہیں۔ فائل فوٹو

میانمارکے فوجی حکمرانوں کی ایک عدالت، جمہوریت پسند رہنما آنگ سان سوچی کے خلاف مقدمے کے باقی پانچ الزامات پر جمعہ کو اپنا فیصلہ سنائے گی۔ سوچی گزشتہ 18 ماہ سےقید میں ہیں۔

میانمار کی فوج نے گزشتہ سال جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد سوچی کو جیل میں ڈال دیا تھا کہ جس سے جنوب مشرقی ایشیا کے اس ملک میں، جہاں زیادہ تر فوج اقتدار میں رہی ہے، مختصر جمہوری دور کا خاتمہ ہو گیا تھا۔

77 سالہ آنگ ساں سوچی کو، جنہیں نوبیل امن انعام بھی مل چکا ہے، اس سے قبل عدالت بدعنوانی، واکی ٹاکی کی غیر قانونی درآمد اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کے 14 الزامات میں مجرم قرار دے کر 26 برس قید کی سزا سنا چکی ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

روہنگیا مسلمانوں کی 'نسل کشی' کی داستان

خبررساں ادارے اے ایف پی کو، مقدمے سے و اقف ایک شخص نے اپنی شناخت پوشیدہ رکھنے کی شرط پر بتایا کہ دونوں فریقوں کی جانب پیر کو حتمی دلائل مکمل ہو گئے ہیں جس کے بعد عدالت جمعہ یعنی 30 دسمبر کو اپنا فیصلہ سنا دے گی۔

ذرائع نے مزید کہا کہ سوچی کی صحت بہتر دکھائی دے رہی تھی۔

SEE ALSO: میانمار کی حکومت تشدد کا خاتمہ اور تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کرے: سلامتی کونسل کی قرارداد

انسانی حقوق کے گروپس نے اس مقدمے کی مذمت کرتے ہوئے سوچی کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا ہے جب کہ اس سے قبل بدھ کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میانمار کی صورت حال پر اپنی پہلی قرار داد میں سوچی کو رہا کرنے کا مطالبہ کر چکی ہے۔

آنگ ساں سوچی ان دنوں دارالحکومت نیپیداو میں عدالت کے قریب واقع ایک عمارت میں قید ہیں اور انہیں اپنا گھریلو عملہ اور پالتو کتا ساتھ رکھنے کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔

فوجی بغاوت کے بعد سے میانمار مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ باغی گروہ سرحدی علاقوں میں سرگرم ہیں اور ملکی معیشت تباہی کی جانب بڑھ رہی ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سوچی کو ان کی سزا کا کچھ حصہ گھر میں نظربندی کی صورت میں گزارنے کی اجازت مل سکتی ہے۔

SEE ALSO: میانمار : فوج کے فضائی حملوں میں 80 افراد ہلاک

فوج نے الزام لگایا تھا کہ 2020 کے انتخابات کے دوران بڑے پیمانے پر دھاندلی گئی تھی۔ ان انتخابات میں سوچی کی نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی نے شاندارکامیابی حاصل کی تھی۔بین الاقوامی مبصرین کا کہنا تھا کہ انتخابات بڑی حد تک آزادانہ اور منصفانہ تھے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد سے فوجی ہنتا کی جانب سے جاری کریک ڈاؤن میں اب تک 2600 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

انسانی حقوق کے گروپس فوج پر ماورائے عدالت ہلاکتوں اور عام شہریوں پر فضائی حملوں کا الزام عائد کرتے ہیں جو جنگی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں۔

اس رپورٹ کی کچھ معلومات اے ایف پی سے لی گئی ہیں۔