رسائی کے لنکس

بھارت: کرونا کیسز میں اضافے پر حفاظتی اقدامات، کئی ممالک سے آنے والوں کے لیے منفی رپورٹ لازم قرار


فائل فوٹو
فائل فوٹو

چین سمیت بعض ممالک میں کرونا وائرس کے کیسز میں اضافے کے پیشِ نظر بھارت میں حفاظتی اقدامات سخت کر دیے گئے ہیں۔ حکومت نے تمام ریاستوں کے لیے نئی ہدایات جاری کی ہیں۔ وزارتِ صحت کے حکام اس حوالے سے متواتر اجلاس کر رہے ہیں۔

وزیرِ اعظم نریندر مودی نے اتوار کو اپنے ماہانہ ریڈیو پروگرام ’من کی بات‘ میں عوام سے اپیل کی کہ وہ محتاط رہیں اور ماسک پہننے اور ہاتھ دھونے جیسے احتیاطی اقدامات کی پابندی کریں۔

انہوں نے کہا کہ عوام نئے سال کا جشن ضرور منائیں البتہ احتیاطی تدابیر کا خیال رکھیں۔ اگر کرونا کے حوالے سے احتیاطی تدابیر کی پابندی کی جائے گی توکرونا سے محفوظ رہا جائے گا۔

انہوں نے اس سے قبل جمعرات کو تمام ریاستی حکومتوں سے اپیل کی کہ وہ صورتِ حال پر نظر رکھیں۔

انہوں نے بالخصوص ہوئی اڈوں پر نگرانی تیز کرنے کی ہدایت کی، جس کے بعد ہوائی اڈوں پر دیگر ممالک سے آنے والے مسافروں کی تھرمل اسکریننگ کی جا رہی ہے جب کہ دو فی صد بین الاقوامی مسافروں کے کرونا ٹیسٹ بھی ہو رہے ہیں۔

دہلی میں محکمۂ صحت کے حکام نے تیاریوں کا جائزہ لینے کے لیے اسپتالوں کا دورہ شروع کر دیا ہے۔ حکومت کی ہدایت کے مطابق اسپتالوں میں کرونا کی ہنگامی صورتِ حال کی آزمائش شروع کر دی ہے۔

حکومت نے چین، جاپان، تھائی لینڈ، ساوتھ کوریا اور سنگاپور سے آنے والے مسافروں کے لیے کرونا ٹیسٹ کی رپورٹ پیش کرنا لازم کر دیا ہے۔ بین الاقوامی مسافروں کو کرونا وائرس کی منفی رپورٹ پیش کرنی ہوگی۔

رپورٹس کے مطابق چین میں اومیکرون کے نئے ویرئینٹ بی ایف پوائنٹ سیون کے پائے جانے کے بعد صورت حال بے قابو ہو گئی ہے۔ رواں ماہ میں آبادی کا ایک بڑا حصہ وبا سے متاثر ہوا ہے۔ اسپتالوں میں انتہائی نگہداشت کے شعبے میں مریضوں کی بھرمار ہے جب کہ آخری رسومات کے لیے جگہ کم پڑ رہی ہے۔

بھارت میں اب تک نئے ویرئینٹ کے صرف چار کیس سامنے آئے ہیں۔

طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہاں بڑی آبادی نے مدافعت حاصل کر لی ہے لہٰذا یہ نیا ویرئینٹ بھارت میں زیادہ ہلاکت خیز ثابت نہیں ہو رہا۔

ان کا کہنا ہے کہ بھارت میں ڈیلٹا ویرئینٹ کی لہر آئی تھی جو بہت خطرناک تھی۔ اس وقت حکومت کی جانب سے ویکسین لگانے کا عمل تیز کیا گیا تھا۔ اس کے بعد اومیکرون ویرئینٹ آیا اور اس وقت بوسٹر ڈوز دیے گئے۔

ان کے مطابق چین اور بھارت کی صورتِ حال میں کافی فرق ہے۔ جو کچھ چین میں ہو رہا ہے وہ بھارت میں نہیں ہوگا۔

’انڈین ایسو سی ایشن آف ایپیڈومالوجسٹس‘ کے نائب صدر ڈاکٹر جگل کشور کہتے ہیں کہ نیا ویرئینٹ بھارت میں جولائی میں ملا تھا۔ وہ بھی اسے خطرناک نہیں مانتے کیوں کہ ان کے بقول بھارت کی بہت بڑی آبادی نے ویکسین کی خوراکیں لے لی ہیں۔ یہاں کے عوام پہلے ہی کرونا وائرس کا مقابلہ کر چکے ہیں لہٰذا نیا ویرئینٹ نہ تو زیادہ پھیلے گا اور نہ ہی خطرناک ہوگا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ڈاکٹر جگل کشور کا کہنا تھا کہ اس وقت چین میں اس نئے ویرئینٹ نے ہی تباہی مچائی ہے۔ وہ اس کی وجہ بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ چین کی آبادی بھارت سے کہیں زیادہ ہے۔ وہاں زیرو کووڈ پالیسی اپنائی گئی اور سخت لاک ڈاؤن لگایا گیا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ چین میں معمر افراد کی بہت بڑی آبادی ہے اور آبادی کے اس حصے کو ویکسین نہیں لگ سکی۔

ان کے مطابق جب لاک ڈاون کی سختیاں کم کی گئیں اور معاشی سرگرمیوں کی اجازت دی گئی، تو فطری طور پر لوگ کرونا سے متاثر ہونے لگے۔ ان کے بقول وہاں جو اموات ہو رہی ہیں ان میں اکثریت بڑی عمر کے افراد کی ہے۔

مبصرین کے مطابق اگرچہ بھارت میں نئے ویرئینٹ کے صرف چار کیس پائے گئے ہیں تاہم ملک میں خوف و ہراس کی لہرو دوڑ گئی ہے اور لوگ اس اندیشے میں ہیں کہ کہیں کرونا وبا کی چوتھی لہر نہ آجائے۔

انڈین میڈیکل ایسو سی ایشن نے ایک بیان میں کہا ہے کہ بھارت میں کرونا کی صورتِ حال قابو میں ہے۔ وہ ابھی خطرناک نہیں ہوئی ہے اور اسی لیے گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔

ایسوسی ایشن نے بھی عوام سے احتیاطی تدابیر اپنانے پر زور دیا ہے۔

ڈاکٹر جگل کشور کے مطابق بھارت میں جو نیا ویرئینٹ پایا گیا ہے وہ پھیل نہیں رہا ہے۔ حکومت نے احتیاطی اقدامات شروع کر دیے ہیں۔ ٹیسٹنگ تیز کر دی گئی ہے تاکہ اگر کوئی نیا ویرئینٹ آئے تو اس کا علم ہو سکے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ملک میں انفیکشن بڑھا ہے جیسا کہ عام طور پر وائرس میں ہوتا ہے لیکن شرح اموات میں اضافہ نہیں ہوا۔ بھارت سمیت پوری دنیا میں مدافعت بڑھی ہے۔

تاہم ان کا کہنا ہے کہ عوام کو احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔

وزارتِ صحت کے مطابق اتوار کو کرونا وائرس کے 227 اور پیر کو 196 کیسز سامنے آئے تھے۔ اس وقت بھارت میں کرونا کے فعال کیسز کی تعداد 3428ہے۔

میکس ہیلتھ کیئر کے میڈیکل ڈائریکٹر ڈاکٹر سندیپ بدھی راجہ بھی چین میں کرونا کے کیسز میں اضافے کی وجہ زیرو کووڈ پالیسی اور انتہائی سخت لاک ڈاؤن کو قرار دیتے ہیں۔ ان کا بھی یہی کہنا ہے کہ جس طرح بھارت میں لوگوں نے بڑھ چڑھ کر ویکسین کی خوراکیں لیں چین میں ایسا نہیں ہوا۔

انہوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کی آبادی کی اکثریت کو ویکسین لگ چکی ہے۔ اگر نیا ویرئینٹ پھیلتا بھی ہے جس کا امکان بہت کم ہے، تب بھی وہ ہلاکت خیز نہیں ہوگا۔ لوگوں کے اندر وائرس سے لڑنے کی قوت پیدا ہو گئی ہے۔

دریں اثنا ریاست اتر پردیش کے آگرہ کے ایک 40 سالہ شخص کا، جو کہ چین سے آیا تھا، کرونا ٹیسٹ مثبت پایا گیا۔ آگرہ کے چیف میڈیکل افسر ارون سریو واستو کے مطابق اس شخص کو گھر میں قرنطینہ میں رکھا گیا ہے۔

اسی طرح بہار کے گیا ایئرپورٹ پر چار غیر ملکی مسافروں کے کرونا ٹیسٹ مثبت پائے گئے۔

ان افراد کا تعلق برطانیہ اور میانمار سے ہے۔ اس کے بعد محکمۂ صحت نے ریاست میں الرٹ جاری کر دیا ہے۔ ان افراد کے رابطے میں آنے والوں کی جانچ کی جا رہی ہے۔

خبر رساں ادارے ’اے این آئی‘ کے مطابق ریاست کرناٹک کی حکو مت نے پیر کو کابینہ اجلاس میں کرونا کی صورتِ حال پر غور کیا اور تھیٹرز، اسکول، کالج اور نئے سال کی تقریبات میں ماسک پہننے کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔

کلکتہ ایئرپورٹ پر بھی دو غیر ملکی مسافروں کا کرونا ٹیسٹ مثبت پایا گیا۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG