پاکستان کے نجی نیوز چینل اے آر وائی نیوز کے خلاف کراچی میں مقدمہ درج کر لیا گیا ہے جس میں چینل کے سینئر عہدیداروں کو نامزد کیا گیا ہے۔
کراچی کے ضلع ملیر کے تھانہ میمن گوٹھ میں بدھ کو یہ مقدمہ پولیس کی مدعیت میں درج کیا گیا جس میں ریاست کے خلاف جنگ پر اکسانے، بغاوت، فوجیوں کو بغاوت پر اکسانے، ہنگامہ آرئی پر جان بوجھ کر اکسانے، جرم میں اعانت کرنے، شر پھیلانے اور مجرمانہ دھمکیوں سمیت دیگر دفعات شامل کی گئی ہیں۔
ایف آئی آر میں چینل کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) سلمان اقبال، ہیڈ آف نیوز عماد یوسف اور پروگرام پروڈیوسر راجہ عدیل کو نامزد کیا گیا ہے۔
یہ مقدمہ ایسے موقع پر درج ہوا ہے جب پولیس نے منگل اور بدھ کی درمیانی شب کراچی کے علاقے ڈیفنس میں کارروائی کرتے ہوئے عماد یوسف کو حراست میں لے لیا تھا۔
ملیر کے تھانے میں درج ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ سوشل میڈیا پر وائرل ایک کلپ میں دیکھا گیا ہے کہ اے آر وائی پر نشر ہونے والے ایک پروگرام میں تحریک انصاف کے رہنما شہباز گل، تجزیہ کار ارشد شریف، اے آر وائی اسلام آباد کے بیورو چیف خاور گھمن بھی شریک تھے۔ اس پروگرام میں شہباز گل نے سوال و جواب کے دوران فوج کے خلاف نفرت انگیز جوابات دیے۔
SEE ALSO: پاکستان میں حکومت کے ناقد چینل 'اے آر وائی نیوز' کی نشریات معطلایف آئی آر کے متن میں کہا گیا ہے کہ "شہباز گل کا کہنا تھا کہ کوشش کی جارہی ہے کہ تحریک انصاف کے خلاف فوج میں نفرت پیدا کی جائے۔ اس لیے غیر قانونی حکم ماننے سے آپ اپنے ملک کے دفاع کو کھوکھلا کررہے ہیں۔" درخواست گزار کے بقول یہ خیالات افواجِ پاکستان میں منافرت اور بغاوت پیدا کرنے کے مترادف ہیں اور یہ سب منصوبہ بندی کے تحت کیا جارہا ہے جس کا مقصد ملک میں نفرت پھیلانا ہے۔
مقدمے کے درخواست گزار ایس ایچ او تھانہ میمن گوٹھ عتیق الرحمٰن نے الزام عائد کیا ہے کہ پروگرام میں شامل تجزیہ کاروں اور شہباز گل نے پروگرام پروڈیوسر، ڈائریکٹر اور چینل کے سی ای او کی اعانت سے سازش کا ارتکاب کیا ہے۔
تاہم شہباز گل کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایسا کوئی بیان نہیں دیا جس پر انہیں شرمندگی ہو بلکہ ان کا بیان فوج سے پیار کرنے والا بیان ہے۔
SEE ALSO: شہباز گل کو فوج میں بغاوت کی کوشش' کے الزام میں گرفتار کیا گیا: وفاقی حکومتاسلام آباد کی مقامی عدالت میں بدھ کو پیشی کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے شہباز گل کا کہنا تھا کہ ان کا بیان بیورو کریسی کے ان افسران کے لیے تھا جو غلط باتیں کر رہے ہیں۔
تحریکِ انصاف کے رہنما اسد عمر نے اپنے ردِ عمل میں کہا ہے کہ اے آر وائی کی بندش اور ہیڈ آف نیوز کی گرفتاری خالصتاً فسطائیت ہے۔
ان کے بقول پہلے سیاست دانوں کے خلاف کریک ڈاؤن اور اب میڈیا کی جبراً زباں بندی کی گئی ہے۔ اس کے بعد کیا کیا جائے گا؟
واضح رہے کہ پیر کو شہباز گل کے اے آر وائی نیوز پر نشر ہونے والے بیان کے بعد میڈیا کے نگراں ادارے پیمرا نے ملک بھر میں اے آر وائی کی نشریات بند کر دی تھیں۔
پیمرا نے اے آر وائی نیوز کو اظہارِ وجوہ کا نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ شہباز گل کا بیان نفرت آمیز اور پاکستانی فوج کے اندر بغاوت کو اکسانے والا تھا جسے نشر کرنا کمزور ادارتی پالیسی کو ظاہر کرتا ہے۔
پاکستان میں اے آر وائی چینل کی نشریات بدستور معطل ہیں تاہم بیرونِ ملک اور یوٹیوب پر نشریات کا سلسلہ جاری ہے۔
اے آر وائی سے وابستہ اینکر کاشف عباسی نے منگل کی شب اپنے شو کے آغاز میں چینل کی انتظامیہ اور چیف ایگزیکٹو سلمان اقبال کا مؤقف پیش کیا اور کہا کہ "اے آر وائی شہباز گل کے بیان کی مذمت کرتا ہے اور چینل ادارے کے طور پر کبھی بھی عدلیہ، فوج یا کسی بھی ادارے کے خلاف مہم کا حصہ نہ بنا ہے اور نہ آئندہ بنے گا۔"