میڈیا رپورٹس کے مطابق، پیر کو فلوریڈا کے پام بیچ میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مار-اے-لاگو رہائش گاہ پرایف بی آئی کے چھاپے اور تلاش کی کارروائی کے حالات فوری طور پر واضح نہیں ہو رہے تھے ۔ تاہم، محکمہ انصاف نے نہایت سرگرمی سے خفیہ معلومات پر مشتمل بکسوں کی دریافت کے بارے میں تحقیقات کی ہیں، جنہیں جنوری 2021 میں ٹرمپ کے وائٹ ہاؤس چھوڑنے کے بعد فلوریڈا کی رہائش گاہ پر لے جایا گیا تھا۔
اس خبر کے بعد بہت سے حلقوں میں یہ بحث چھڑ گئی کہ ایف بی آئی کو اس کارروائی کی ضرورت کیوں پڑی ۔ وی اے او کی نامہ نگار ڈورا میکوار نے صدارتی دستاویزات کے بارے میں ایک عمومی تحقیق کی، جس میں کئی اہم سوالات کو اٹھایا گیا۔
اس سلسلے میں پہلا سوال یہی اٹھتا ہے کہ ٹرمپ کی مدت صدارت کے دوران کال لاگز، مسودے، تقریریں، ہاتھ سے لکھے گئے نوٹ اور دیگر دستاویزات نیشنل آرکائیوز کی انتظانیہ کے قبضے میں کیوں آجاتی ہیں؟
صدارتی ریکارڈ امریکی حکومت کی ملکیت ہے
ایجنسی کی قائم مقام ڈپٹی چیف آپریٹنگ آفیسر میگھن ریان گوتھورن نے کہا، "صدارتی ریکارڈ امریکی حکومت کی ملکیت ہے اور نیشنل آرکائیوز کے زیرانتظام رکھا جاتا ہے ۔ "لہذا، تمام صدارتی کاغذات، مواد اورنیشنل آرکائیوز کی تحویل میں موجود ریکارڈز، چاہے عطیہ کیے گئے ہوں، ضبط کیے گئے ہوں یا صدارتی ریکارڈز ایکٹ کے تحت کیے گئے ہوں، وفاقی حکومت کی ملکیت سمجھے جاتےہیں۔"
1978 کے صدارتی ریکارڈ ایکٹ کے مطابق تمام صدارتی ریکارڈ عوام کی ملکیت ہیں اور کمانڈر انچیف کے دفترچھوڑتے ہی خود بخود نیشنل آرکائیوزکی تحویل میں چلے جاتے ہیں۔ تمام صدارتی لائبریریاں اورعجائب گھرنیشنل آرکائیوز کا حصہ ہیں۔ سابق صدربراک اوباما کی صدارتی لائبریری مکمل طور پر ڈیجیٹل ہونے والی پہلی لائبریری ہوگی۔
ریان گوتھورن نیشنل آرکائیوز اینڈ ریکارڈز ایڈمنسٹریشن کی سرکاری ریکارڈ کیپر ہیں ، انہوں نے بتایا کہ "صرف ایک سے تین فی صد ریکارڈز کو مستقل ریکارڈ سمجھا جاتا ہے، اوریہ وہ دستاویزات ہیں جو امریکی شہریوں کے حقوق اور استحقاق کو سمجھنے کے لیے ضروری ہیں اور ہمارے منتخب عہدیداروں کوان کے اقدامات کے لیے جوابدہ ٹھہراتی ہیں اور ہماری قومی تاریخ کو دستاویزی طور پر محفوظ رکھتی ہیں۔"
صدارتی ریکارڈ ہمیشہ سے عوام کی ملکیت نہیں ہوتا تھا
ریان گتھورن نے کہا، "جارج واشنگٹن سے جمی کارٹرتک صدارتی انتظامیہ کے کاغذات کو صدر کی نجی ملکیت سمجھا جاتا تھا اوروہ ان کے بارے میں جومناسب سمجھتے تھے، فیصلہ کرتے۔"
زیادہ تر کمانڈر انچیفس نے اپنے صدارتی کاغذات عطیہ کیے ہیں، یہ مثالی روایت صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ نے 1940 میں شروع کی تھی اور 1970 کی دہائی میں اس وقت تک جاری رہی جب صدر رچرڈ نکسن نے واٹر گیٹ اسکینڈل کے دوران خفیہ ٹیپ ریکارڈنگ سمیت اپنے ریکارڈز کو تباہ کرنے کے لیے جدوجہد کی، یہ کوشش بالآخر ناکام ہو گئی اور اس کے نتیجے میں ان کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا۔
اپنی زندگی کے دوران، نکسن نے اپنے صدارتی ریکارڈ کو نجی رکھنے کے لیے کافی تگ و دو کی۔ نیشنل آرکائیوز نے واٹر گیٹ سے متعلق زیادہ ترریکارڈنگ حاصل کیں، لیکن تمام نہیں۔ نکسن کی موت کے بعد، ان کے خاندان نے ان کے صدارتی کاغذات اور دیگرموادعطیہ کر دیا۔
صدارتی کاغذات قومی تاریخ کا حصّہ ہیں
وائٹ ہاؤس کے ریکارڈ تک رسائی حاصل کرنے والوں میں شینن بواوبرائن جیسے صدارتی اسکالر بھی شامل ہیں جو تاریخ کو دستاویزی شکل میں رکھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ پروفیسراوبرائن آسٹن کالج آف لبرل آرٹس میں یونیورسٹی آف ٹیکساس کے سرکاری شعبے کے پروفیسر ہیں،وہ کہتے ہیں کہ "عوام انتظامیہ کی مدت ختم ہونے کے پانچ سال بعد فریڈم آف انفارمیشن ایکٹ کے ذریعے درخواستیں دینا شروع کر سکتے ہیں، لیکن صدر 12 سال تک عوام تک رسائی کے لیے کچھ پابندیاں بھی لگا سکتے ہیں۔"
انہوں نے مزید کہا کہ " اگر ہماری اس مواد تک رسائی نہیں ہے، تو اصل حقیقت تک ہماری رسائی نہیں ہے۔ اس کے بعد ہمارے پاس بہت سے طریقوں سے صرف منتخب کردہ سچائیوں تک رسائی رہ جاتی ہے، جو لوگ ہمیں بتانا چاہتے ہیں، یا لوگ کیا دیکھنا چاہتے ہیں، اوریہ ہمیشہ درست نہیں ہوتا۔