پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع سوات میں نجی اسکول وین پر فائرنگ سے ایک طالبہ ہلاک جب کہ پانچ زخمی ہو گئی ہیں۔
پولیس کے مطابق اسکول وین پر فائرنگ , گیٹ پر تعینات پولیس اہلکار نے کی جسے گرفتار کر لیا گیا ہے۔
سوات کے مرکزی تجارتی شہر مینگورہ سے تعلق رکھنے والے صحافی عیسی خانخیل نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ فائرنگ کا یہ واقعہ سنگوٹہ پبلک اسکول کے باہر اس وقت پیش آیا جب طالبات چھٹی کے بعد گھر واپسی کے لیے وین میں سوار تھیں۔
سوات کے ضلعی پولیس افسر شفیع اللہ گنڈاپور نے صحافیوں کو بتایا کہ اسکول وین پر فائرنگ کرنے والے پولیس اہلکار کا نام علم خان ہے۔ تاہم یہ واضح نہیں ہو سکا کہ اس نے اسکول وین پر فائرنگ کیوں کی۔
صحافی عیسی خانخیل نے بتایا کہ فائرنگ کے فوری بعد مبینہ پولیس اہلکار کو ذہنی مریض بتایا گیا، تاہم بعدازاں پولیس اہلکاروں نے ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ پولیس اہلکار سے غلطی سے فائرنگ ہوئی۔
زخمی طالبات کو سیدو شریف کے مرکزی ڈویژنل ہیڈ کوارٹر اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
خیال رہے کہ سوات میں ہی 12 اکتوبر 2012 کو مینگورہ میں نامعلوم عسکریت پسندوں نے ایک اسکول وین پر فائرنگ کی تھی جس کے نتیجہ میں ملالہ یوسفزئی اور ان کی دو سہلیاں زخمی ہو گئی تھیں۔
واقعے کے بعد ملالہ اور اُن کی دو سہیلیوں شازیہ اور کائنات کو علاج کے لیے لندن منتقل کیا گیا تھا۔
'بیٹی اسکول سے گھر آ چکی تھی، لیکن اب وہ خوف زدہ ہے'
مینگورہ سے تعلق رکھنے والے صحافی نیاز احمد خان جن کی بیٹی بھی سنگوٹہ پبلک اسکول میں زیرِ تعلیم ہیں کا کہنا تھا کہ سوات میں پہلے ہی حالات خراب ہیں اور ایسے میں اس واقعے نے لوگوں کو مزید افسردہ کر دیا ہے۔
وائس آف امریکہ کے نذر الاسلام سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اس واقعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ پولیس کے محکمے میں مزید اصلاحات کی ضرورت ہے۔
نیاز احمد کے مطابق ان کی بیٹی اس واقعے سے قبل اسکول سے نکل چکی تھیں لیکن اس واقعے کے بعد وہ شدید خوف و ہراس میں مبتلا ہیں۔
ان کے مطابق اسکول میں 800 سے زائد لڑکیاں پڑھتی ہیں۔ اس اسکول کا پورے علاقے میں ایک نمایاں مقام ہے اور یہ والی سوات کے دور میں قائم کیا گیا۔
نیاز احمد کے مطابق وہ چاہتے ہیں کہ اس پولیس اس واقعے کی مکمل تحقیقات کرے اور واقعے میں ملوث اہلکار کو قرار واقعی سزا دی جائے تاکہ ایسے واقعات دوبارہ سے رونما نہ ہو سکیں۔