بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں پولیس نے ٹارگٹ کلنگ کے حالیہ واقعات میں ملوث ایک عسکریت پسند کو مقابلے کے دوران ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے جب کہ ایک الگ کارروائی میں فوج کے پانچ اہلکار ہلاک ہو گئے ہیں۔
پولیس حکام کے مطابق پیر کو شورش زدہ وادیٔ کشمیر کے شمالی ضلع بانڈی پور میں انکاؤنٹر آپریشن کے دوران امتیاز احمد ڈار نامی عسکریت پسند مارا گیا ہے جس کے چار ساتھیوں کو گزشتہ دنوں چھاپوں کے دوران حراست میں لیا گیا تھا۔
پولیس سربراہ دل باگ سنگھ نے دعویٰ کیا ہے کہ مذکورہ پانچوں افراد ایک مقامی ٹیکسی ڈرائیور محمد شفیع لون کے قتل کی سازش میں ملوث تھے جن کا تعلق 'دی ریزسٹنس فرنٹ' یا ٹی آر ایف نامی تنظیم سے ہے۔
پولیس کے مطابق یہ تنظیم ٹارگٹ کلنگز اور دہشت گردی کے کئی واقعات کی ذمہ دار ہے جب کہ ٹی آر ایف کالعدم عسکری تنظیم 'لشکرِ طیبہ' کا ایک شیڈو گروپ ہے۔
لشکرِ طیبہ اور ٹی آر ایف نے پولیس کے ان الزامات کی بارہا تردید کی ہے۔
گزشتہ ہفتے سری نگر اور اس کے مضافات میں یکے بعد دیگرے سات افراد کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا تھا جن میں ایک سکھ خاتون اور تین ہندو بھی شامل تھے۔
خونریزی کے ان واقعات اور ان کی وجہ سے اقلیتوں میں پیدا شدہ خوف و ہراس سیکیورٹی فورسز کے لیے نئے چیلنج بن کر سامنے آیا ہے۔
SEE ALSO: بھارت کے زیر ِ انتظام کشمیر میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کیوں بڑھ رہے ہیں؟دوسری جانب نئی دہلی میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت اور اس کے مقامی نمائندوں کو حزبِ اختلاف کی شدید نکتہ چینی کا سامنا ہے۔
حکومت کے اس دعوے پر بھی سوال اٹھائے جا رہے ہیں کہ پانچ اگست 2019 کو جموں و کشمیر کی نیم خود مختاری کو ختم کرنے کا اقدام علاقے میں امن کو بحال کر کے صورتِ حال کو معمول پر لانے میں مدد گار ثابت ہوا ہے۔
وفاقی وزیرِ داخلہ امیت شاہ کی ہدایت پر بھارت کی انٹیلی جنس ایجنسیوں انٹیلی جنس بیورو ( آئی بی)، ریسرچ اینڈ انالسز ونگ (را) اور قومی تحقیقاتی ادارے نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی ( این آئی اے ) کے اعلیٰ عہدیداروں نے اختتامِ ہفتہ سری نگر پہنچ کر مقامی سیکیورٹی فورسز کے افسران کے ساتھ کئی ملاقاتیں کیں۔ جس کے دوران مذکورہ واقعات کی روک تھام اور صورتِ حال پر مکمل قابو پانے کے مجوزہ اقدامات پر غور و خوض کیا۔
بھارتی فوج کے پانچ اہلکار ہلاک
بھارتی کشمیر کے سرحدی ضلع پونچھ کے علاقے سُرنکوٹ میں عسکریت پسندوں کے ساتھ ایک جھڑپ کے دوران بھارتی فوج کے پانچ اہلکار ہلاک ہو گئے ہیں جن میں ایک جونیئر کمیشنڈ آفیسر بھی شامل ہے۔
علاقے میں مزید عسکریت پسندوں کی موجودگی کی اطلاعات ہیں اور آخری اطلاع تک بھارتی فوج کا آپریشن جاری ہے۔
سیکیورٹی فورسز کا کریک ڈاؤن
بھارتی کشمیر میں ٹارگٹ کلنگ کے حالیہ واقعات کے بعد مقامی پولیس نے ایک بڑے کریک ڈاؤن کے دوران تقریباً 700 افراد کو حراست میں لے لیا ہے۔
حراست میں لئے گئے افراد کالعدم جماعت اسلامی، استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی کشمیری جماعتوں کے اتحاد کُل جماعتی حریت کانفرنس اور دوسری ہم خیال سیاسی جماعتوں کے اراکین، حامی یا ہمدرد ہیں۔
حراست میں لیے جانے والے افراد میں ایسے نوجوان بھی شامل ہیں جن پر ماضی میں سرکاری دستوں پر سنگ باری کرنے کے واقعات میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔
دوسری جانب 'این آئی اے' نے سری نگر کے ایک اسکول کی پرنسپل سوپندر کور اور استاد دیپک چند کے قتل کے سلسلے میں لگ بھگ 50 افراد سے پوچھ گچھ کی ہے جن میں مختلف سرکاری اسکولوں کے اساتذہ بھی شامل ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
این آئی اے نے چالیس اساتذہ کو سری نگر کی چرچ لین میں واقع دفتر میں اتوار اور پیر کو حاضر ہونے کے سمن جاری کیے تھے۔
واضح رہے کہ سوپندر کور اور دیپک چند کو مسلح ملزمان نے سات اکتوبر کو سری نگر کے سنگھ معید گاہ علاقے میں واقع گورنمنٹ بوائز ہائر سیکنڈری اسکول کے قریب گولیاں مار کر ہلاک کیا تھا۔
قتل کے مذکورہ واقعے کے بعد این آئی اے کی ٹیمیں گزشتہ دو روز سے مختلف مقامات پر چھاپہ مار کارروائی کے دوران گرفتاریاں عمل میں لا رہی ہیں۔
یاد رہے کہ پانچ اکتوبر کو ٹارگٹ کلنگ کا ایک واقعہ سری نگر کے علاقے اقبال پارک میں پیش آیا تھا جہاں مسلح ملزمان نے ایک دکان میں داخل ہو کر وہاں موجود اس کے مالک مکھن لال بِندرو کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ اڑسٹھ سالہ دوا فروش ایک کشمیری پنڈت یا برہمن ہندو تھے۔
اسی روز لال بازار کے علاقے میں ریاست بہار سے تعلق رکھنے والے ایک خوانچہ فروش وریندر پاسوان کو قتل کر دیا گیا تھا۔ دو اکتوبر کو بھی سری نگر کے دو شہری عبد المجید گورو اور محمد شفیع ڈار ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوئے تھے۔
'ٹارگٹ کلنگز کے واقعات کا مقصد خوف و ہراس پھیلانا ہے'
پولیس کا کہنا ہے کہ وادیٔ کشمیر میں شہریوں کو نشانہ بنا قتل کرنے کے واقعات کا مقصد لوگوں میں خوف و ہراس پھیلانا ہے۔
ایک اعلیٰ پولیس عہدیدار وجے کمار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ عسکری تنظیمیں دہشت گردی کے خلاف سیکیورٹی فورسز کے مؤثر اور نتیجہ خیز آپریشنز کی وجہ سے بوکھلاہٹ کا شکار ہیں جس کا اظہار نہتے اور بے قصور شہریوں کو تشدد کا نشانہ بنا کر کیا جارہا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
سکھوں کی ایک مذہبی تنظیم اور مختلف سیاسی اور سماجی جماعتوں کے ایک اتحاد نے اعلان کیا ہے کہ اقلیتی سرکاری ملازمین تب تک کام پر نہیں جائیں گے جب تک حکومت ان کے لیے سیکیورٹی کا معقول انتظام نہیں کرتی۔
کئی کشمیری پنڈت ملازمین کے چھٹی پر جانے اور ان میں سے بعض کے اہلِ خانہ سمیت وادی سے جموں کی طرف روانہ ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔
تاہم پولیس نے اس تاثر کی نفی کی ہے کہ اقلیتی ہندو اور سکھ فرقے کے افراد ہی مشتبہ عسکریت پسندوں کا ہدف ہیں۔
ایک بیان میں پولیس نے کہا ہے کہ رواں برس اب تک جن 28 شہریوں کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا ان میں صرف پانچ مقامی اور دو غیر کشمیری ہندو اور سکھ تھے جب کہ باقی 21 مقامی مسلم شہری تھے۔