|
اسلام آباد -- پاکستان کے مختلف شہروں میں مون سون بارشوں کی وجہ سے سیلابی صورتِ حال پیدا ہو رہی ہے جب کہ کئی علاقوں میں رابطہ سڑکیں ٹوٹنے اور لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے رابطے بھی منقطع ہو گئے ہیں۔
نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے مطابق رواں مون سون سیزن میں اب تک 195 افراد ہلاک اور 362 افراد زخمی ہو گئے ہیں جب کہ 2300 کے قریب گھر اور لوگوں کی املاک کو نقصان پہنچا ہے۔
ملک بھر میں مختلف مقامات پر سڑکیں بند ہونے سے شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
صوبہ سندھ کے مختلف شہروں اور اضلاع میں بارش نے تباہی مچا دی ہے۔ سکھر میں بارش کا گزشتہ 77 سال کا ریکارڈ ٹوٹ گیا جہاں 24 گھنٹوں کے دوران چار اسپیلز میں 263 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔
گلگت بلتستان میں شاہراہ قراقرم گورو کے مقام پر سیلابی ریلے کے باعث بند ہو چکی ہے جب کہ گلگت ہنزہ نگر سیکشن بھی ٹریفک کے لیے بند ہے۔
خیبرپختونخوا میں درہ آدم خیل میں 11 افراد سیلابی ریلے میں بہہ گئے۔
پنجاب میں حکام نے فلیش فلڈنگ کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔
سندھ
محکمہ موسمیات کے مطابق 24 گھنٹوں کے دوران خيرپور میں 169 ملی میٹر، لاڑکانہ میں 123 ملی میٹر، موئن جو دڑو میں 119 ملی میٹر، روھڑی میں 119، جیکب آباد میں 99 ملی میٹر اور دادو میں 75 ملی میٹر بارش ہوئی ہے۔
تیز بارشوں سے آبپاشی کا نظام متاثر ہوا ہے جب کہ کئی علاقوں میں ڈرینج سسٹم بھی اوور فلو ہو رہا ہے جس کی وجہ سے چاول، کپاس، کھجور اور دیگر فصلوں کو بہت نقصان ہوا ہے۔
بارشوں سے موئن جو دڑو کے قدیم آثاروں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔
موسلادھار بارش کی وجہ سے محراب پور میں سیلابی صورتِ حال پیدا ہو گئی۔ محراب پور میں سوچی کالونی، پیر شیر شاہ کالونی، سومراہ کالونی، مدرسہ کالونی زیرِ آب آ گئی ہیں۔
خیبر پختونخوا
وائس آف امریکہ کے نمائندے شمیم شاہد کے مطابق خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں تین روز کے دوران شدید بارشوں کے نتیجے میں ندی نالوں میں طغیانی آئی ہے۔
سب سے زیادہ جانی نقصانات خیبر پختونخوا کے جنوبی ضلع کوہاٹ میں ہوا جہاں تیز بارش کے باعث تہہ خانے میں پانی جمع ہونے سے ایک ہی خاندان کے 10 افراد جان کی بازی ہار گئے۔
پی ڈی ایم اے کے ترجمان لطیف الرحمٰن نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ تیز بارشوں اور فلیش فلڈ کے باعث چترال لوئر میں بونی اور گرم چشمہ روڈ جب کہ سوات میں کالام سے بحرین اور ناران سے بالاکوٹ روڈ ٹریفک کے لیے بند ہے۔
بارشوں اور سیلابی صورتِ حال کے پیشِ نظر ضلع لوئر چترال میں دفعہ 144 نافذ کر دی گئی ہے۔
دوسری جانب مانسہرہ کے علاقے مہانڈری میں دریائے کنہار پر قائم پل ٹوٹنے سے سیاح کاغان اور ناران میں پھنس گئے ہیں۔ ضلعی انتظامیہ کے مطابق بارش تھمنے پر عارضی پل بنایا جائے گا۔ تاہم سیاحوں کو چلاس اور گلگت کے راستے واپس بھجوایا جا رہا ہے۔
سیاحوں کی سہولت کے لیے صدر ناران ہوٹلز ایسوسی ایشن مطیع اللہ نے کہا ہے کہ ہوٹل مالکان پھنسے ہوئے سیاحوں کو مفت رہائش دیں گے جب کہ کھانے پینے کی اشیا پر 50 فی صد رعایت ہو گی۔
گلگت بلتستان کی صورتِ حال
پاکستان کے چین کے ساتھ ملحقہ شمالی صوبہ گلگت بلتستان میں بھی شدید بارشوں کے نتیجے میں پہاڑی اور برفانی تودے گرنے کے واقعات رونما ہوئے۔
ان واقعات میں جانی نقصانات کے اطلاعات تو نہیں ملیں۔ تاہم مختلف سڑکوں اور شاہراہوں پر آمد و رفت کا سلسلہ متاثر ہوا ہے۔
وادی ہنزہ، شندور، اسکردو اور مختلف علاقوں میں سینکڑوں کی تعداد میں سیاح پھنسے ہوئے ہیں۔
گلگت بلتستان حکومت کے ترجمان فیض اللہ فراق نے رابطے پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ شاہراہ قراقرم سمیت مختلف علاقوں کی متاثرہ سڑکوں اور شاہراہوں کو کھولنے اور آمد و رفت بحال کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہے۔
پنجاب کی صورتِ حال
ملک کے دیگر حصوں کی طرح پنجاب میں تین، چار روز سے بارشوں کا سلسلہ جاری ہے جب کہ محکمہ موسمیات نے آئندہ چند روز میں مزید بارشوں کا امکان ظاہر کیا ہے۔
پی ڈی ایم اے کے مطابق آئندہ 24 گھنٹوں میں صوبے کے بیش تر اضلاع میں مون سون بارشوں کا امکان ہے۔ ڈیرہ غازی خان، ملتان اور بہاولپور ڈویژنز میں فلیش فلڈنگ کا خدشہ ہے۔
ترجمان کے مطابق رواں سال مون سون بارشوں کے باعث 84 شہری ہلاک، 224 زخمی اور 245 گھر متاثر ہوئے ہیں۔
زیادہ تر اموات آسمانی بجلی گرنے، کرنٹ لگنے، کچے گھر اور بوسیدہ عمارتوں کے گرنے سے ہوئیں۔
دریائے سندھ میں تربیلا کالاباغ اور چشمہ کے مقام پر نچلے درجے جب کہ تونسہ میں درمیانے درجے کا سیلاب ہے۔ دریائے چناب، راوی، ستلج اور جہلم میں پانی کا بہاؤ نارمل سطح پر ہے۔
منگلا ڈیم میں پانی کی سطح 70 فی صد، تربیلا میں 99 فی صد ہے۔ ستلج، بیاس اور راوی پر قائم بھارتی ڈیمز میں پانی کی سطح 54 فی صد تک ہے۔
بلوچستان
کوئٹہ میں وائس آف امریکہ کے نمائندے مرتضیٰ زہری کے مطابق بلوچستان میں مون سون بارشوں اور سیلاب سے یکم جولائی سے اب تک 18 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
بلوچستان میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے ادارے پی ڈی ایم اے نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ بلوچستان میں یکم جولائی سے اب تک مو سلادھار بارشوں اور سیلابی ریلوں کے باعث 2919 مکانات کو نقصان پہنچا ہے۔
رپورٹ کے مطابق حالیہ بارشوں سے بھاری جانی اور مالی نقصانات ہوئے ہیں اب تک صوبے کے مختلف علاقوں میں سیلابی ریلوں، چھتیں اور آسمانی بجلی گرنے کے واقعات میں 18 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
پی ڈی ایم اے کے ایمرجنسی سینٹر کے ترجمان محمد یونس نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ زیادہ ہلاکتیں بلوچستان کے ضلع خضدار میں ہوئی ہیں جہاں دو بچوں سمیت چار افراد ہلاک جب کہ 11 زخمی ہوئے ہیں۔
پی ڈی ایم اے کے مطابق ضلع خضدار، لورالائی، قلعہ سیف اللہ، حب چوکی، کچھی، قلعہ عبداللہ اور دیگر علاقوں میں مون سون کی حالیہ موسلادھار بارش اور سیلابی ریلوں کے باعث 124 گھر مکمل منہدم اور 293 گھروں کو جزوی نقصان پہنچا ہے۔