پاکستان نے کہا ہے کہ امریکہ کے وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن اور بعض قانون سازوں کے وہ بیانات اسلام آباد اور واشنگٹن ڈی سی کے درمیان قریبی تعاون سے مطابقت نہیں رکھتے جو انہوں نے حال ہی میں امریکی ایوان نمائندگان کی خارجہ امور سے متعلق کمیٹی کی افغانستان پر ایک سماعت کے دوران دیے۔
امریکہ کے وزیرِ خارجہ نے حال ہی میں امریکہ کی ایوان نمائندگان کی خارجہ امور کی کمیٹی میں افغانستان سے متعلق ہونے والی سماعت کے دوران کہا تھا کہ افغانستان میں پاکستان کے بہت سے مفادات ہیں جن میں سے بعض امریکی مفادات سے مطابقت نہیں رکھتے۔
اینٹنی بلنکن نے کہا تھا کہ افغانستان کے معاملے پر امریکہ پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کا جائزہ لے گا اور دیکھے گا افغانستان کے حوالے سے واشنگٹن کی پالیسی کیا ہو گی اور وہ پاکستان سے کیا توقع رکھتا ہے۔
پاکستان کے دفترِ خارجہ کے ترجمان عاصم افتخار احمد نے جمعرات کو معمول کی بریفنگ کے دوران امریکہ کے وزیر خارجہ اور دیگر امریکی حکام کے بیانات پر تبصرہ کرتے ہوئے انہیں حیران کن قرار دیا۔
عاصم افتخار احمد کا کہنا تھا کہ پاکستان نے افغان امن عمل میں مثبت کردار ادا کیا اور افغانستان سے کئی ممالک کے شہریوں کے انخلا میں بھی مدد کی۔ اس بات کو امریکہ کے محکمۂ خارجہ کے ترجمان بھی اپنی 15 ستمبر کی بریفنگ کے دوران تسلیم کر چکے ہیں۔
عاصم افتخار نے یہ بھی باور کرایا کہ افغانستان میں القاعدہ کی قیادت کو کمزور کرنے میں پاکستان نے اہم کردار ادا کیا۔ ان کے بقول جو بین الاقوامی برداری کو بڑا مقصد تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
ترجمان نے مزید کہا کہ افغانستان میں سیاسی تصفیے کے ذریعے جامع حکومت کا حصول پاکستان اور امریکہ کا مشترکہ مقصد ہے۔ پاکستان اس مشترکہ مقصد اور وسیع باہمی تعلقات کے فروغ کے لیے امریکہ کے ساتھ کام کرنے کو تیار ہے۔
امریکی ایوانِ نمائندگان کی اُمور خارجہ کمیٹی کے اجلاس میں ہونے والی ایک سماعت کے دوران امریکی وزیرِ خارجہ نے پاکستان پر یہ بھی زور دیا تھا کہ وہ طالبان حکومت کو تسلیم کرنے میں عجلت کا مظاہرہ نہ کرے۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے امریکی نشریاتی ادارے 'سی این این' کو دیے گئے انٹرویو میں کہا تھا کہ افغانستان کی صورتِ حال پریشان کن ہے۔ دنیا افغانستان کو باہر سے کنٹرول کرنے کی کوشش کے بجائے طالبان کی اہم معاملات پر حوصلہ افزائی کرے۔
عمران خان نے کہا کہ کوئی یہ پیش گوئی نہیں کر سکتا کہ اب افغانستان کس سمت میں جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ افغانستان میں جامع حکومت اور خواتین کے حقوق سمیت دیگر معاملات پر طالبان کی حوصلہ افزائی کریں۔
علاوہ ازیں پاکستان کی قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف کا کہنا ہے کہ پاکستان کے پاس افغانستان میں طالبان کی حکومت کے ساتھ روابط رکھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے اور اگر دنیا نے افغانستان کو تنہا چھوڑا تو دوبارہ دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
اسلام آباد میں بدھ کو غیر ملکی صحافیوں سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ طالبان کے ساتھ روابط قائم کرنا دنیا کے مفاد میں ہے۔
ان کے بقول امریکہ نے کہا تھا کہ افغانستان میں 1990 والی غلطی نہیں دھرائی جائے گی مگر دنیا وہی غلطی دوہرا رہی ہے۔