گھر واپسی پر جب میں انجو سے ملی تو وہ ایک بت کی مانند تھیں۔ بے ربط، ادھورے جملے اور تاثر سے عاری چہرہ انجو کی ذہنی اور جسمانی اذیت کا پتا دے رہا تھا۔
صوبہ سندھ کے علاقہ میرپور خاص کے گاوں دہرکی میں روینا بائی اور رینا بائی کی خبر سنتے ہی مجھے اقلیتی ہندو برادری کی ہی ایک اور لڑکی انجو کا خیال آیا۔ وہ بھی دہرکی کی ہی رہائشی ہیں۔ پہلے اغوا پھر جبری مذہب کی تبدیلی اور شادی کے کرب سے گزرنے والی انجو کا احوال جاننے میں دو سال پہلے دہرکی گئی تھی۔ اس وقت انہیں پولیس کی مدد سے مسلم برادری کے پانچ لڑکوں کی قید سے بازیاب کرا کر واپس گھر پہنچایا گیا تھا۔
آج انجو سے ٹیلی فون کے ذریعے واشنگٹن سے بات کی تو انجو کی آواز کی کھنک سے اس کی خوشی عیاں تھی۔
بازیابی کے دس دن بعد انجو کی شادی رامیش سے کرا دی گئی جو ان کا بہت خیال رکھتے ہیں۔ اٹھارہ سالہ انجو کی اب ایک بیٹی ہے جس کا نام منی ہے۔ انجو خود تو تعلیم حاصل نہ کر سکیں مگر وہ چاہتی ہیں منی ڈاکٹر بنے۔ منی ابھی ایک برس کی ہے۔ لیکن انجو اس کے تخفظ کو لے کر باقی ماؤں کے مقابلے میں زیادہ خوف زدہ رہتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ “میں نے کسی کا کچھ نہیں بگاڑا تھا مگر اس کے باوجود مجھے اغوا کیا گیا۔ میرے ساتھ زیادتی (ریپ) کی گئی۔ مجھے مارا گیا۔ رسیوں سے باندھ کر بھوکا پیاسا رکھا، کیونکہ میں نے اپنا مذہب تبدیل کرکے شادی کرنے سے انکار کیا تھا۔ میں اپنی بچی کو ایسے لوگوں سے بہت دور رکھنا چاہتی ہوں۔ میں اسے کبھی اکیلا نہیں چھوڑتی۔”
انجو سولہ برس کی تھیں جب ماں کے ساتھ معمول کے مطابق کھیتوں میں گھاس کاٹنے گئیں، مگر ایک دن کھیت میں پانچ مسلم برادری سے تعلق رکھنے والے لڑکے آئے۔ اور اسے بندوق کی نوک پر آغوا کر کے کراچی لے گئے۔کراچی میں انہیں تین ماہ تک قید میں رکھا گیا۔ اتنی زیادتی کے بعد وہ اندر سے ٹوٹ چکی تھیں۔ جبر اور قید سے تنگ آکر کئی بار خودکشی کی کوشش بھی کی۔ مگر اس وقت شکر ادا کیا جب انہیں پولیس نے بازیاب کرا لیا۔
گھر واپسی پر جب میں انجو سے ملی تو وہ ایک بت کی مانند تھیں۔ بے ربط، ادھورے جملے اور تاثر سے عاری چہرہ انجو کی ذہنی اور جسمانی اذیت کا پتا دے رہا تھا۔ شادی کے بعد انجو اپنا گاؤں چھوڑ کر سانگھڑ منتقل ہو گئیں ہیں مگر وہ اس اذیت سے آج بھی پوری طرح باہر نہیں نکلیں۔
وہ وی او اے سے بات کرتے ہوے بولیں، “میں اب بہت خوش ہوں۔ میرا شوہر مجھ سے اور ہماری بیٹی سے بہت پیار کرتا ہے۔ شاہد یہی خوشی دیکھنے کے لیے میں زندہ بچ گئی۔ لیکن آج بھی اکثر میں اس واقع کے بارے میں سوچتی ہوں۔ جتنی کوشش کروں وہ میرے ذہن سے نہیں نکلتا۔ میں اب گھر سے اکیلے باہر جانے سے ڈرتی ہوں۔ اسی لیے کام کاج کے لیے کھیتوں میں اپنی دیورانی کے ساتھ جاتی ہوں۔ مجھے اپنے گاؤں جانے سے بھی خوف آتا ہے۔”
انجو کی بازیابی کی کوشش کرنے والے دہرکی کے ہی وکیل اور سماجی کارکن ایدن بھیل کو بھی انجو کے مدد کرنے پر جان سے مارنے کی دھملیاں ملیں۔ وی او اے سے بات کرتے ہوے انہوں نے کہا “میں اس کیس کے بعد گاؤں چھوڑ کر کچھ عرصے کے لیے عمرکوٹ شہر چلا گیا تھا۔ لیکن یہ میرے ساتھ ہر اس طرح کے کیس کے بعد ہوتا ہے۔ اب عادت ہو گی ہے”۔
ان کے بقول، 2018ء میں کم سے کم 400 کے قریب ہندو لڑکیوں کے جبری مذہب کی تبدیلی اور زبردستی شادی کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ ان کیسز میں سے اسی فیصد لڑکیوں کا تعلق سندھ سے ہی ہے۔
پاکستان کی دوسری بڑی اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے ہندو حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان کی بچیوں کی حفاظت کے کیے موجود قوانین پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے، تاکہ انجو اپنی بیٹی کے تخفظ کو لے کر دن رات پریشان نہ رہے۔
فون بند کرنے سے پہلے انجو نے کہا “میں نہیں چاہتی کہ میری بیٹی کبھی بھی وہ دکھ دیکھے جو میں نے ہندو ہونے کی وجہ سے دیکھا ہے۔”