پر امن اور مستحکم افغانستان کی اہمیت اور ضرورت پر زور دیتے ہوئے، ترکی، پاکستان اور افغانستان کے وزرائے خارجہ نے جمعے کے روز استنبول میں سہ فریقی ملاقات کے بعد مشترکہ بیان جاری کیا ہے، جس میں پر امن افغانستان کے لیے مل کر کام کرنے کے عزم کا اظہار کیا گیا ہے۔
ترکی، پاکستان اور افغانستان کے وزرا خارجہ کے درمیان یہ اہم ملاقات افغانستان کے بارے میں چوبیس اپریل کو استنبول میں ہونے والی کانفرنس کے ملتوی ہونے کے بعد ہوئی ہے۔
ملاقات کے بعد جاری کئے گئے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، افغانستان کے وزیر خارجہ محمد حنیف اتمر اور ترکی کے وزیر خارجہ چاوو شو گلو نے افغان امن عمل کی اہمیت اور اس حوالے سے درکار اقدامات کی اہمیت کو اجاگر کیا اور پر امن اور مستحکم افغانستان کے حصول کے لیے کوششیں کرنے کا اعادہ کیا۔
مشترکہ بیان میں افغان امن عمل کے لئے ترکی، قطر اور اقوام متحدہ کی کوششوں کو سراہا گیا ہے۔ افغانستان میں سیکیورٹی کی صورتحال پر عدم اطمینان کا اظہار کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ مذاکرات کے لئے سازگار ماحول بنانے کے لئے افغانستان میں تشدد ختم کرنا ضروری ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ استنبول کانفرنس کو ملتوی کرنے کا فیصلہ تمام سٹیک ہولڈرزسے تفصیلی بات چیت کے بعد کیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ استنبول کانفرنس میں طالبان نے شرکت سے انکار کر دیا تھا جس کے بعد ترک وزیر خارجہ نے اس کانفرنس کو رمضان کے آخر تک ملتوی کرنے کا اعلان کیا۔ تاہم ابھی تک استنبول کانفرنس کی نئی حتمی تاریخ کا اعلان نہیں ہوا۔
طالبان کا کہنا تھا کہ جب تک افغانستان سے تمام غیر ملکی افواج کا انخلا نہیں ہو جاتا تب تک وہ کسی ایسی کانفرنس میں شرکت نہیں کریں گے جو افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے فیصلہ سازی کرے۔
افغان شہری اور مبصرین، جن کو استنبول کانفرنس سے مثبت پیش رفت کی امید تھی، اس کے ملتوی ہونے کو امن کے لیے کی جانے والی کوششوں کو نقصان دہ قرار دے رہے ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر طالبان استنبول کانفرنس سے پیچھے نہ ہٹتے تو یہ افغانستان کے عوام کے لیے بہت سود مند عمل ہوتا۔ کیوں کہ افغانستان میں امن کی کوششوں میں رکاوٹ یا تاخیر سے خونریزی میں اضافہ ہوتا چلا آیا ہے۔
'استنبول کانفرنس سے نوجوان نسل کو کافی توقعات تھیں'
افغانستان کے دارالحکومت کابل میں مقیم داخلی امور اور خواتین کے مسائل پر رپورٹنگ کرنے والی خاتون صحافی کا کہنا ہے کہ اگر امریکہ دوحہ امن معاہدے کے مطابق یکم مئی کو افغانستان سے تمام افواج نکال لیتا تو افغانستان میں جاری تشدد کی لہر میں مزید اضافہ ہو سکتا تھا۔ جب کہ افغانستان میں طالبان کے حملوں کے ساتھ ساتھ القاعدہ جیسی دہشت گرد تنظیموں کو بھی پنپنے کا موقع ملتا۔
یاد رہے کہ اقوامِ متحدہ کی حالیہ رپورٹ میں افغانستان میں طالبان اور القاعدہ کے درمیان تعاون کا ذکر کیا گیا ہے۔ تاہم طالبان ایسی تمام رپورٹس کو مسترد کرتے ہیں۔
رواں سال مارچ میں افغانستان کے صوبہ ننگرہار میں تین خواتین صحافیوں کے قتل کے بعد صحافی برادری عدم تحفظ کا شکار ہے۔
قبل ازیں ’انعکاس ٹیلی وژن‘ کی ایک اور صحافی ملالئی میوند کو اس وقت ہلاک کیا گیا جب وہ گھر سے دفتر آ رہی تھیں۔ اس حملے کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم داعش نے قبول کی تھی۔
Your browser doesn’t support HTML5
سیکیورٹی خدشات کے باعث اصل نام نہ بتانے کی شرط پر خاتون صحافی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ استنبول کانفرنس سے نوجوان نسل کو کافی توقعات تھیں۔ اس موقع پر افغان حکومت اور طالبان کسی تصفیے پر پہنچ جاتے۔ جب کہ امن کے حصول کے حوالے سے مثبت بات چیت بھی ہوتی اور جنگ بندی پر اتفاق ہو جاتا جس کے بعد امن کے ایک نئے باب کا آغاز ہوتا۔
انہوں نے کہا کہ نہیں معلوم کہ افغان عوام کو مزید کتنا وقت خوف کے سائے میں گزارنا پڑے گا۔
افغان صحافی کا مزید کہنا تھا کہ افغان شہری پُر امید ہیں کہ اگر طالبان دوبارہ اقتدار میں آتے ہیں تو وہ اپنی گزشتہ پالیسیوں پر ضرور نظرِ ثانی کریں گے۔
امریکی صدر جو بائیڈن کے افغانستان سے 11 ستمبر تک تمام افواج کے انخلا کے اعلان سے متعلق مبصرین کے مطابق بہت سے افغان عوام اور کچھ امریکی ماہرین بھی تذبذب کا شکار ہیں۔
افغانستان کے لیے سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل فرینک میکنزی نے آرمڈ سروسز کمیٹی کو حال ہی میں بتایا کہ انہیں طالبان کے وعدوں پر شدید شکوک و شبہات ہیں۔ البتہ یہ دیکھنا ہوگا کہ وہ (مستقبل) میں کیا کریں گے۔
'افغان عوام کا امریکہ سے اعتماد اٹھ گیا ہے'
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ افغانستان کے عوام استنبول کانفرنس کو افغانستان کے لیے امن کی ایک کوشش کے طور پر دیکھ رہے تھے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کابل یونیورسٹی کے پروفیسر اسد وحیدی نے بتایا کہ اس کانفرنس سے قبل امریکہ نے افغان عوام کو باور کرایا تھا کہ اس کے بعد افغانستان میں امن و امان کی فضا قائم ہو جائے گی۔ اب جب کہ یہ کانفرنس اپنے مقررہ وقت پر نہیں ہو رہی ہے۔ تو افغان عوام کا امریکہ سے بھی اعتماد اٹھ گیا ہے اور جس جنگ کے رکنے کی امید عوام لگائے بیٹھے تھے اس میں مزید تیزی دیکھنے میں آ رہی ہے۔
پروفیسر اسد وحیدی کا کہنا ہے کہ گزشتہ روز غزنی میں شدید لڑائی کے باعث سیکڑوں کی تعداد میں افراد، بشمول بچے اور خواتین، نے کابل ہجرت کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بیشتر افراد نے رہائش کے لیے جگہ نہ ہونے کی وجہ سے سڑکوں پر ہی خیمے لگا لیے ہیں اور وہ رمضان میں اشیائے خورد و نوش کی سکت بھی نہیں رکھتے۔
Your browser doesn’t support HTML5
اسد وحیدی کے مطابق افغان عوام اس جنگ سے تنگ آ چکے ہیں اور وہ جلد از جلد اس کا خاتمہ چاہتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کے شاگرد بھی حالیہ واقعات کے پیشِ نظر تذبذب کا شکار ہیں۔ نوجوان نسل موجودہ نظام سے بھی خوش نہیں ہیں۔ کیوں کہ اگر دیکھا جائے تو حکومت کی پالیسیاں بھی مکمل آزاد نہیں ہیں۔
انہوں نے دعوی کیا کہ افغان حکومت امریکہ اور دوسرے ممالک کے زیرِ اثر ہے اور خود سے کوئی بھی حکمتِ عملی نہ بنا سکتے ہیں اور نہ ہی اس پر عمل درآمد کر سکتے ہیں۔ اور یہ بات نوجوان نسل کے لیے قابلِ قبول نہیں ہے کہ انہیں فیصلہ سازی میں مکمل آزادی حاصل نہیں ہے۔
پروفیسر اسد وحیدی نے بتایا کہ نوجوان نسل طالبان سے بھی خائف ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر طالبان دوبارہ اقتدار میں آتے ہیں تو جو ترقی انہوں نے کی ہے وہ کہیں ضائع نہ ہو جائے۔ نوجوان نسل ایک متوازن نظام چاہتے ہیں جس میں تمام افغانوں کی نمائندگی ہو۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں اس وقت طلبہ مخلوط نظام میں ایک ہی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ نوجوان نسل کو خطرہ ہے کہ کہیں وہ طالبات کے کالجز اور جامعات کی تعلیم پر پھر سے پابندی نہ لگا دی جائے۔
اس ضمن میں طلبہ کا کہنا ہے کہ بیشک دونوں کے لیے علیحدہ علیحدہ مکتب بنا دیے جائیں لیکن تعلیم کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں آنی چاہیے۔
استنبول کانفرنس ملتوی ہونے پر افغان ارکانِ پارلیمان بھی مایوس
استنبول کانفرنس کے ملتوی ہونے سے نہ صرف نوجوان نسل بلکہ افغان ارکانِ پارلیمان بھی مایوس نظر آتے ہیں۔
ارکانِ پارلیمنٹ کا کہنا ہے کہ اس کانفرنس کے ذریعے افغانستان کے 70 فی صد مسائل حل ہو سکتے تھے۔ کیوں کہ اس کانفرنس کا انعقاد، بون طرز کی کانفرنس کے طور پر ہو رہا تھا۔
یاد رہے کہ 2001 میں طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بعد جرمنی کے شہر بون میں افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے ایک کانفرنس کا انعقاد کیا گیا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
افغانستان کے صوبہ بدخشاں سے تعلق رکھنے والی رکنِ پارلیمنٹ ڈاکٹر نیلوفر ابراہیمی کا کہنا ہے کہ افغانستان میں امن کا قیام نہ صرف افغانستان بلکہ اس کے پڑوسیوں بشمول پاکستان اور ایران کے لیے بھی بہت اہم ہے۔ کیوں کہ ان ممالک کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اس وقت سیاسی افراد کو بھی کچھ پتا نہیں چل رہا ہے کہ حالات کس سنگینی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔
امریکی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے ڈاکٹر نیلوفر نے کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے طالبان کی بہت زیادہ حمایت کی۔ اب وہ سات ہزار مزید قیدیوں کی رہائی اور اپنے رہنماؤں کے نام بلیک لسٹ سے خارج کرنا چاہتے ہیں جس سے واضح ہوتا ہے کہ وہ امن کے بارے میں کتنے سنجیدہ ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ طالبان ہر کانفرنس کے بعد اپنی فتح کا اظہار کرتے ہیں۔
ڈاکٹر نیلوفر نے کہا کہ اگر طالبان دوبارہ سے اقتدار میں آتے ہیں تو نوجوان نسل بلخصوص خواتین کے لیے حالت خراب ہوں گے۔
ان کے مطابق جب وہ گزشتہ ادوار میں طالبان رہنماؤں سے ملیں تو انہوں نے ان کے مزاج کو بلکل تبدیل نہیں پایا۔
انہوں نے بتایا کہ جب بھی ان کی طالبان رہنماؤں سے مستقبل میں افغانستان کے کردار سے متعلق بات ہوئی تو وہ ہمیشہ اسے شرعی قوانین سے منسلک کرتے تھے یعنی اس لحاظ سے ابھی تک ان کی کوئی جامع پالیسی مرتب نہیں ہے۔
ڈاکٹر نیلوفر کا کہنا تھا کہ طالبان رہنما جب بھی خواتین صحافیوں سے بات کرتے ہیں تو وہ ان کے ساتھ آنکھ سے آنکھ ملا کر بات چیت نہیں کرتے جس سے اس امر کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی سوچ اب بھی خاصی قدامت پسند ہے۔
ڈاکٹر نیلوفر ابراہیمی کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان کی ترقی کے لیے خواتین اور نوجوان نسل کا کردار اہم ہے۔ کیوں کہ 65 فی صد آبادی نوجوان نسل پر مشتمل ہے لیکن بدقسمتی سے وہ تمام اپنے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہیں۔